بجٹ اور عوامی ریلیف
روٹی ، کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضروریات ہیں ۔ عوام الناس میں مقبولیت کے لیے یہ نعرہ بے حد سود مند رہا ۔جن سیاسی پارٹیوں نے بھی اسے اپنا منشور رکھا اوراس برائے نام نعرے کی آواز لگائی وہ اس کے توسط سے کئی برس تک غریب عوام پر حکومت کرتے رہے اور عوام کی توقعات کو پورا کرنے سے قاصر رہے ۔ ایک غریب شخص جب صبح اپنے گھر سے نکلتا ہے تو خواہشات سے درکنار اپنے لیے ضروریات زندگی کا متلاشی ہوتا ہے۔ جس سے اس کا گزر ممکن ہو سکے جبکہ ایک امیر انسان اس کے برعکس اپنی آسائش کا سامان اکٹھا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اردو اصطلاح میں اسی کو طبقاتی فرق اور انگریزی میں سوسائٹی ڈفرینس کہتے ہیں یہی ایک امیر اور غریب میں بنیادی فرق بھی ہے۔
نوزائیدہ حکومت کو آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہی ہوئے ہیں کہ انہوں نے عوام کوریلف دینے کی بجائے عوام دشمن بجٹ کی تشکیل کی ۔ جس نے عوام سے ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین بھی چھین لیا ہے۔گرمی ، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی سے بد حال عوام اپنی تمام تر امیدیں اس نو منتخب حکومت سے لگائے بیٹھے تھے کہ یہ مسیحا صفت لوگ ایوانوں میں آ کر عوامی مسائل کی ترجمانی کریں گے۔مہنگائی کی کمر توڑنے کے لیے ایک پرائس کنٹرول سیل کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ جو عوام کی مشکلات کا سدباب ثابت ہوگا۔ مگر انہوں نے مہنگائی کی کمر توڑنے کی بجائے ٹیکس میں مزید اضافہ کر کہ نہ صرف غریب عوام کی کمر توڑی بلکہ اس مہنگائی مافیا کو کھلم کھلی چھٹی بھی دی ہے جو قبل از وقت ہی قیمتوں میں اضافہ کر کہ لاچار عوام کی ہڈیوں کو نچوڑتے ہیں۔
جس پر چیف جسٹس صاحب کا بیان عوام کے لیے سامان راحت ثابت ہوا جس میں انہوں نے غریب عوام کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے اس بجٹ میں لگائے گئے ایک فیصد اضافی جی ایس ٹی کے نفاذ کو کالعدم قرار دیا ہے اور مزید یہ بھی فرمایا ہے کہ حکومت عوام کی جیب پر مزید بوجھ ڈال رہی ہے جو کہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے جس کا حکومت کو حق حاصل نہیں ہے۔ عوام جنا ب چیف جسٹس کے بے حد مشکور و ممنون ہیں کہ جنہوں نے عوام کے احساسات اور جذبات کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے اور اشیاءخوردونوش اور پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس واپس لینے کا حکم صادر فرمایا ہے۔
بڑے بڑے عوامی فلاحی ریاست کے دعویدار عوامی مسائل تو حل نہ کر سکے مزید ٹیکسوں کا نیا بوجھ انہیں تحفہ میں دے سکے۔گذشتہ سالوں کے پیش نظر یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ ایوانوں تک پہنچنے والے سیاست دان سب سے پہلے نزلہ گزشتہ حکومت اقتدار حکومت پر گراتے ہیں اور وراثت میں ملنے والے خالی خزانوں کا گلہ شکوہ کرنے میں نظر آتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ ، ڈرون حملے اور ائی ایم ایف جیسے موضوعات تو کئی کئی روز تک ٹاک شوز میں زیر بحث رہے۔مگر حسب روایت یہ سب بھی محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف رہا۔اور منتحب حکومت نے بھی وہی معیشت کی خستہ حالی کا رونا دھونا کیا جو اس سے گزشتہ حکومتوں نے اقتدار میں آ کر کیا اور وہی آزمودہ و ناپائیدار اقدامات کے اعلانات کئے جس نے ملک کو آگے ہی ان حالات تک پہنچا دیا ہے۔
عوامی حکومت کا بجٹ عوام کے لئے گورکھ دھندہ ثابت ہوا ہے جس نے عوام کو مزید ٹیکسوں کے بوجھ کی نوید نہایت ہی خوش اسلوبی سے سنائی ہے۔ جو کہ عوام پر حکومت کی طرف سے ڈرون حملے کہ مترادف ہے۔جس میں عوامی ریلیف کے نام پر غریبوں کی کھلے عام تضحیک کی گئی ۔ موجودہ حالات کے پیش نظر اس قسم کا بجٹ نہایت ہی غیر مناسب اور انتہائی ناسازگار ثابت ہو گا۔اور مہنگائی کا طوفان لے کر آئے گا۔ بجٹ کے خدوخال کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے موجد وزیر خزا نہ صاحب بذات خود نہیں ہیں ۔کیونکہ بجٹ میں مسطور سطریں اور ان کی فصیح و بلیغ تشریح دونوں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔
جی ایس ٹی کا نفاذ ملکی معیشت کے لیے مذید بوجھ ثابت ہو گا۔ ماہرین کے مطابق حکومتی ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ جی ڈی پی میں دو سے تین فیصد تک کمی کا باعث بنتا ہے اور معیشت میں خسارے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بغور مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں اللہ نے بڑے وسائل سے نواز ا ہے ہمارے ملک میں کوئلے، گیس ، پانی ، نمک اور دیگر معدنیات کے بڑے پیمانے پر ذخائر موجود ہیں جو وسائل پیدا کرنے کے لیے بیتاب ہیں اور حکومتی توجہ کے طالب ہیں۔ اگر ہم ان وسائل کو بھر پور طریقے سے بروئے کار لائیں تو یہ ملکی قومی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کا باعث ہو سکتی ہے۔جس سے جی ڈی پی کے تناسب کو غیر معمولی فروغ ملے گا، معشیت مستحکم ہو گی۔جس سے ملک میں خوشحالی آئے گی۔اور عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ سے خلاصی ملے گی۔ ٭