ہمارے سرکاری ادارے

ہمارے سرکاری ادارے
ہمارے سرکاری ادارے

  

ہاروڈ بزنس سکول دنیا کا معتبر ترین بزنس سکول ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کاروباری اداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کو ادارہ جاتی راہ نمائی فراہم کرنے کے لئے ہاروڈ بزنس ریویو (Harward Busniess Review) جیسا موقر جریدہ نکال رہا ہے۔ اس کے تازہ شمارے میں ایک ریسرچ شائع ہوئی ہے جو اس کے کارکنان نے گزشتہ تین سالوں کی محنت، انٹرویوز، سیمینارز اور رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد مرتب کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے سینکڑوں Executives اور اداروں کے سربراہوں اور عملہ کی پسندیدہ ترین کمپنی یا ادارہ جسے یہ Dream Company /Organisationکہتے ہیں مندرجہ ذیل خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے۔
1    جہاں ہر کام کرنے والا آزادی فکر سے مخصوص دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرسکے۔
2    جہاں آپ سے کوئی بات چھپائی نہ جائے۔ آپ اس بات سے مکمل آگاہی رکھتے ہوں کہ اس ادارہ کا مطمع نظر کیا ہے، اہداف کیا ہیں اور ادارہ کی حدود کیا ہیں؟
3    جہاں آپ کی خوبیوں اور توانائیوں کو مزید نکھارا جائے نہ یہ کہ ادارہ صرف آپ سے کام لے اور توانائیوں کو نچوڑے۔
4    جہاں ادارے کا مقصد نیک ہو۔ آپ کا کام خود میں ایک تسکین اور خوشی کا باعث ہو۔
5    جہاں احمقانہ قسم کے فیصلوں اور احکامات سے گریز کیا جائے۔

پاکستان کے سرکاری ادارے اور سول افسران اکثر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان پر سست روی، قوانین و ضوابط کے مریضانہ حد تک غلامی اور اقربا پروری اور سفارش کے الزامات لگتے رہتے ہیں جو کافی حد تک درست بھی ہیں۔ بہت سے کمیشن اپنے اپنے انداز میں ان اداروں میں اصلاحات کے لئے کام کرچکے ہیں اور نہایت جامع اور بلیغ رپورٹس بھی حکومت کے سپرد کرچکے ہیں۔ ہمارے دانشور حضرات اخباری کالموں میں وقتاً فوقتاً مختلف تجاویز و اصلاحات کا ذکر کرتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی منتخب یا فوجی حکومت اس مشینری کو ٹھیک نہیں کرسکی۔ گزشتہ فوجی حکومت کے دور میں کچھ اصلاحات ضرور نافذ کی گئیں جیسے ترقی کو دوران ملازمت کئے جانے والے کورسز سے مشروط کرنا، سینئر گریڈز میں Promotion for the Best of the Bestوالی پالیسی، تنخواہوں میں اضافہ وغیرہ لیکن یہ تمام صرف Cosmetics ہی ثابت ہوئے۔ بہت سی مزید اصلاحات بدلتے ہوئے حالات اور صوبائی خود مختاری کے تناظر میں کی جانی چاہئیں لیکن اس کے لئے حکومتی ارادہ اور منزل کا تعین بہت ضروری ہے۔

ایک نظر ہاروڈ بزنس ریویو کی پیش کردہ پانچ خواہشات پر مبنی کمپنی، ادارہ پر ڈالتے ہیں۔ مثلاً پہلا نقطہ ہی لیجئے۔ یہاں سرکاری افسرآزادی فکر کے ساتھ اور اپنی صحیح قابلیت کے مطابق ڈیسک پر کام کر رہا ہے؟ یقینا نہیں! کیونکہ پاکستان میں تو ایک General Cadre ہے جس کے افسران کہیں بھی متعین ہوسکتے ہیں۔ Specialised Cadres کو صرف چند ایک ہیں اور وہ بھی گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔ ریسرچ کا دوسرا نقطہ ادارے میں کام کرنے والے لوگوں سے معلومات شیئر کرنے سے متعلق ہے۔ ہر ملازم اگر یہ جانتا ہو کہ اس کا کام کن بڑے اہداف کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور یہ اہداف ایک ادارہ جاتی نظام کے ذریعے ہی متعین کئے گئے ہیں تو اس کا اعتماد اور تخلیقی قوت بہترین انداز میں استعمال ہوگی۔ معلومات تک عدم رسائی کی صورت میں وہ سمجھے گا کہ کچھ کام حکام بالا کی ذات کی خود نمائی کے لئے کئے جا رہے ہیں اور عوامی بھلائی سے ان کا خاص تعلق نہیں ہے۔ ہمارے سرکاری محکمے ایک سخت قسم کے محکمہ جاتی نظام کے تحت جکڑے ہوئے ہیں جہاں اعلیٰ افسران اپنی خود غرضی یا کمزوری کو چھپانے کے لئے نچلے عملے کو مشاورت کے عمل میں شریک نہیں کرتے۔ حالانکہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اجتماعی دانش ہمیشہ اچھے نتائج دیتی ہے۔ تیسرے نمبر کے نقطہ کے مطابق آپ کی صلاحیتوں کو مسلسل نکھارا جائے اور انہیں Groomکیا جائے۔ ایسا تو ہماری سرکار میں اعلیٰ سطح پر ہی ممکن ہے۔ جہاں آفیسر کیڈر کو اگلے کریڈ میں جانے کے لئے کچھ مخصوص کورسز کرنے پڑتے ہیں یا پھر یہی افسران غیر ملکی کورسز پر بھی ہاتھ صاف کرلیتے ہیں۔ باقی لاکھوں ملازمین تو جیسے آئے تھے ویسے کی بنیاد پر کام میں مصروف ہیں۔ جو قدرتاً یا صلاحیت کے اعتبار سے کمزور ہیں وہ بھی کام کر رہے ہیں اور جو نسبتاً بہتر تھے وہ بھی آہستہ آہستہ زنگ آلود نظام کا حصہ بن کر اپنی رہی سہی توانائیاں بھی کھو رہے ہیں۔ ان کی تربیت، تنظیم کا کوئی معقول نظام اب تک نہیں ہے۔ چوتھا نقطہ ہے کہ ادارے کا مقصد نیک ہو اور کام کی نوعیت میں مقصدیت اور منزل کا تعین شامل ہو۔ ایک بنیادی مقصد تو تمام سرکاری اداروں کا واضح ہے کہ ریاست کے نظام کو چلانے کے لئے مختلف ادارے اپنے مخصوص دائرہ کار میں اور مخصوص قوانین کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے ہیں لیکن یہ بنیادی مقصد بھی برس ہا برس کی انگریزی کی غلامی اور اس کے بعد براﺅن صاحب کی حاکمیت کے تصور کی وجہ سے دھندلا سا گیا ہے۔ لہٰذا ان اداروں میں کام کرنے والے افسران بھی ایک نہ نظر آنے والے وہم میں بندھے ہوئے ہیں کہ عوام کا بھلا ہوگیا تو کہیں ان کی حاکمیت ختم نہ ہو جائے۔ یہ باریک نفسیاتی مسئلہ ایک بڑے مقصد کو پس پشت ڈال کر سرکاری ملازم سے کام کی لذت بھی چھین لیتا ہے۔ آخری نقطہ یعنی احمقانہ قوانین! جو ہمارے ہاں کثرت سے ہیں کیونکہ کسی نے ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ ان قوانین اور ضوابط کو ہر چند برس بعد پارلیمنٹ یا کابینہ کی منظوری سے تبدیل ہی کر دیا جائے۔ روزمرہ نوعیت کے عام قوانین میں بھی تبدیلی کسی صحیفہ آسمانی میں تبدیلی سمجھی جاتی ہے۔ لکیر کا فقیر بننا ہی افسری سمجھی جاتی ہے کہ اس سے ان کے تقدس میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے کہ ”صاحب بڑا قانونی ہے“۔
پولیس کے نظام پر تو بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے لیکن ایک بات شائد اب تک واضح نہیں ہوسکی کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں پولیس کے چند افسران ہی ہیں جو ہمیشہ کلیدی جگہوں پر تعینات ہوتے ہیں۔ مزید برآں شہری پولیس اور دیہاتی پولیس افسران کی ایک واضح تقسیم موجود ہے جو ایک پروفیشنل فورس کے قطعاً شایان شان نہیں ہے۔ اگر یہ ایک حقیقت ہے تو ایک صوبائی پولیس فورس کی بجائے ہر شہر (ضلع) کی اپنی پولیس ہو جو اس ضلع کے مخصوص سماجی پس منظر سے آشنا ہو اور زیادہ دل جمعی سے جرائم کی بیخ کنی کرسکے۔
اس مضمون کا مقصد صرف تنقید نہیں ہے بلکہ انسانی احساسات اور ضروریات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور بدلنے کی جانب راغب کرنا ہے۔ ہمارے بیشترسرکاری ادارے صرف ملازمتیں بانٹنے اور سرکاری تنخواہ کے حصول کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ عوام کی فلاح اور معاشرے کی ترقی سے ان کا دور کا واسطہ ہی رہ گیا ہے۔ ہمارے کچھ حکمران اکثر سنگاپور کی مثال دیتے نظر آتے ہیں، سنگاپور کا آمریت کا نظام جس میں ترقی تو خوب ہوئی لیکن بہت سی شخصی آزادیوں کو سلب کیا گیا تھا اس میں سنگاپور کے مرد آہن لِن کو ان لونے صرف 100لوگوں سے اور ان کے نیچے 300اور ان کے نیچے 900لوگوں سے یعنی کل چودہ پندرہ سو لوگوں پر مشتمل سرکاری مشینری سے ترقی اور خوشحالی کا ایک قابل رشک نظام قائم کر دیا تھا۔ لیکن پاکستان ایک بہت بڑا ملک ہے۔ اس کے مسائل اور وسائل دونوں سنگاپور سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہاں کے لئے امریکہ، انگلینڈ یا سویڈن کے سرکاری نظام کی مثال زیادہ فائدہ مند ہوسکتی ہے۔ ہماری آنے والی نئی حکومت کو بھی چاہیے کہ پہلے سے موجود سرکاری اصلاحاتی کمیشن کی رپورٹس کی روشنی میں اور نئے دور کی سیاسی، سماجی اور معاشی ضروریات کے مطابق پاکستان کی ریاستی مشینری میں نئی روح پھونکی جائے۔ ورنہ ایک اور منتخب جمہوری حکومت تمام تر خلوص نیت کے باوجود کچھ زیادہ نہ کر پائے گی۔ ٭

مزید :

کالم -