رمضان المبارک کے انوار و انعامات کیسے حاصل کیے جائیں؟
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی
’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خطاب فرمایا (اس میں یہ بھی فرمایا کہ رمضان المبارک) ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ رحمت ہے، درمیانہ حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا ہے۔‘‘
اللہ رب العزت کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں یہ بابرکت لمحات عطاء فرمائے لیکن مادیت کے اس دور میں ہماری عبادات بھی رسمی ہو کر رہ گئی ہیں ان عبادات کی اہمیت اور حقیقت ذہن میں جس طرح ہونی چاہیے تھی اس طرح نہیں رہی۔
اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں ایسی عبادت عطا فرمائی جس کا اجر اللہ تعالیٰ خود عطا فرمائیں گے۔ پھر ماحول بھی ایسا عطا فرما دیا کہ شیاطین کو پابند زنجیر کر دیا۔ رمضان کے تینوں عشروں کو بالترتیب رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کا زمانہ قرار دیا۔ اب ہمیں اس مبارک مہینہ میں کس طرح رہنا چاہیے تاکہ رمضان المبارک کے انوار و انعامات حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہو جائے۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحی ؒ (خلیفہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ ) نے جمعہ کے دن ۲۲ شعبان ۱۳۹۳ھ کو ایک مجلس میں اپنے مخصوص انداز میں ارشادات سے نوازا، کہ :’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ میر امہینہ ہے اور اس مہینہ میں طاعات و عبادات کا صلہ میں دوں گا‘‘ خدا معلوم ان کی مشیت میں کیا کیا صلہ ہے جو وہ اپنے بندوں کو عطا فرمائیں گے۔ دیکھئے اس طرح یہ کتنا مہتم بالشان مہینہ ہے اور جب کوئی محترم و مکرم مہمان آتا ہے تو ہم لوگ بہت کچھ تیاریاں کرتے ہیں اس لیے رمضان المبارک کے لیے ہم کو خوب تیاری پہلے سے کرنی چاہیے‘‘۔
تہیہ کر لیجیے کہ اب پاکیزہ و محتاط زندگی گزاریں گے۔ آنکھوں کا غلط استعمال نہ ہونے پائے، سماعت میں فضول باتیں نہ آنے پائیں۔ بیکا ر باتوں میں مشغول نہ ہوں‘ اخبار بینی سے زیادہ شغف نہ ہونے پائے‘ اس کے علاوہ غیر ضروری تعلقات بھی کم کر دیئے جائیں‘ ایسی تقریبات میں بھی شریک نہ ہوں جہاں شریعت کے خلاف کام ہوں تو انشاء اللہ پاک و صاف رہیں گے۔ اور یاد رکھو کہ ناپاکیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق پیدا نہیں ہو سکتا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اپنے گنہگار غفلت زدہ بندوں کو پہلے ہی سے خبردار کر دیا کہ جیسے ہی رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو تو اپنے عمر بھر کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف کراؤ تاکہ تمہارا اپنے مربی حقیقی سے صحیح و قوی تعلق پیدا ہو جائے اور اگر تم نے ہماری مغفرت واسعہ و رحمت کاملہ کی قدر نہ کی تو؟ پھر تمہاری تباہی و بربادی میں کوئی کسر باقی نہ رہے گی۔
اب اس اعلان رحمت پر کون ایسا بدنصیب بندہ ہے جو اس کے بعد محروم رہنا چاہے گا اس لیے ہم سب لوگ یقیناًبڑے خوش نصیب ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ اپنی زندگی میں پا رہے ہیں۔ اب تمام جذبات عبدیت کے ساتھ اور قوی ندامت کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں اور اس ماہ مبارک کی تمام برکات و انوار و تجلیات الٰہیہ سے مالا مال ہوں۔
لہٰذا اپنے تمام گناہ عمر بھر کے جتنے یاد اور تصور میں آسکیں چاہے وہ دل کا گناہ ہو‘ آنکھ کا، زبان کا یا کان کا سب کو ندامت قلب کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پیش کر دیں اور یہ کہیں اب وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔
یا اللہ ہم کو معاف فرما دیجیے ہر وہ بات جو قابل مواخذہ ہو معاف فرما دیجیے۔ دنیا میں ،بزرخ میں، حشر میں، پل صراط پر، جہاں جہاں بھی مواخذہ ہو سکتا ہے معاف فرما دیجیے اور یا اللہ اب آپ جتنی زندگی بھی آئندہ عطا فرمائیں وہ حیات طیبہ ہو اعمال صالحہ کے ساتھ ہو۔
انشاء اللہ حسب وعدہ الٰہی ہماری یہ دعا ضرور قبول ہو گی۔ مایوس و ناامید نہ ہونا چاہیے جب ان کا وعدہ ہے تو سب انشاء اللہ معاف ہو جائے گا۔البتہ چند گناہ ایسے ہیں جن کی معافی قابل توجہ ہے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے کینہ نہ ہو۔ کینہ رکھنے والا شخص شب قدر کی تجلیات، مغفرت اور قبولیت دعاء سے محروم رہے گا۔ معاشرتی تعلقات میں اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب دوست و احباب سب پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ دیکھئے کہ ان میں سے کسی کے دل میں کسی قسم کا کھوٹ، کینہ اور غصہ تو نہیں ہے۔ اگر آپ اس معاملہ میں حق بجانب اور دوسرا باطل پر ہے تو اگر آپ اللہ سے مغفرت چاہتے ہیں تو اسے معاف کر دیں۔ اگر آپ کی زیادتی ہو تو اس سے جا کر معافی مانگ لیں اس میں شرم کی بات نہیں۔ اگر بالمشافہ ہمت نہ پڑے تو ایک تحریر لکھ کر اس کے پاس بھیج دیں کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں دلوں کو صاف رکھنا چاہیے ہم آپ کو معاف کرتے ہیں آپ بھی ہمیں معاف کر دیجیے۔
اس کے بعد ان کے بارے میں برا نہ چاہیں۔ نہ دل میں انتقام لینے کا خیال رکھیں پھر اپنی بیوی بچوں پر بھی نظر ڈال لیں کہ ان میں سے آپ سے کوئی ناراض تو نہیں یعنی ان کے ساتھ کوئی بے جا تشدد یا زیادتی تو نہیں کی۔ ایسا ہے تو ان سے معافی مانگنے کی ضرور ت نہیں بلکہ خوش اسلوبی سے ایسا برتاؤ کریں جس سے وہ خوش ہو جائیں اس طرح بھائی،بہن، عزیز و اقارب، غرض کسی سے کسی قسم کی بھی رنجش ہو تو ان کو معاف کر دیں اس لیے کہ آپ بھی تو آخر اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہیں۔
اسی طرح فضول باتوں سے پرہیز کیجئے، لغو باتیں کرنے سے عبادت کا نور جاتا رہتا ہے‘ کلام پاک پڑھیے‘ سیرۃ النبی ؐپڑھئے۔ رمضان المبارک کی دو عبادتیں سب سے بڑی ہیں۔ ایک تو کثرت سے نمازیں پڑھنا جس میں تراویح کی نماز بھی شامل ہے اس کے علاوہ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین کا خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ دوسری عبادت تلاوت کلام پاک ہے۔
اگر آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں تو تہیہ کر لیں کہ آپ کے ہاتھ سے ، زبان سے قلم سے خدا کی مخلوق کو کوئی پریشانی نہ ہو ، کسی کو دھوکہ نہ دیں‘ کسی ناجائز غرض سے اس کا کام نہ روکیں‘ کوئی بات خلاف شریعت نہ ہو‘ اگر آپ تاجر ہیں تو صداقت و امانت سے کام کریں۔
اکثر دیندار عورتیں اس بات کی شکایت کرتی ہیں کہ ان کو روزہ افطار کرنے سے قبل عصر اور مغرب کے درمیان تسبیحات پڑھنے یا دعائیں کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ یہ وقت ان کا باورچی خانہ میں صرف ہو جاتا ہے۔ کھانا تیار کرنے میں مشغول رہتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ وقت بھی عبادت ہی میں گزرتا ہے روزہ داروں کے افطار اور کھانے کا انتظام کرتی ہیں جس میں ثواب ہی ثواب ہے۔
رمضان کی راتیں عبادت میں گزارنے سے دن میں بھی سچائی اور دیانت سے کام کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اس مبارک ماہ میں لیلۃ القدر ہے قرآن مجید میں ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ عظیم انعام ہے۔ شب قدر کے بارے میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس کا وقت غروب آفتاب سے طلوع فجر تک رہتا ہے اس لیے اس کا اہتمام ضروری رکھنا چاہیے۔ جس قدر ممکن ہو نوافل، تسبیحات اور دعاؤں میں کچھ اضافہ ہی کر دینا چاہیے۔ ساری رات جاگنے کی ہمت نہ ہو تو جس قدر تحمل ہو بہت ہے۔ جی بھر کے استغفار کر لیا تو اب بھی استغفار کرتے رہیے زیادہ ماضی کے پیچھے نہ پڑیئے اب مستقبل کو سوچئے، مستقبل ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طاعات اور عبادات میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریئے۔