رمضان المبارک میں حضورﷺ کی شفقت اورفیاضی کی دو مثالیں
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ یہ تھاکہ جب رمضان آتا تھا تو آپ ﷺ ہراسیرکو رہا کردیتے تھے اورہرسائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔ ( بہیقی)
رسول اللہ ﷺکی شفقت،رحم دلی، نرمی، عطا، بخشش اورفیاضی کا جو حال عام دنوں میں تھا وہ تو تھاہی ، کہ یہ چیزیں آپ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کا حصہ تھیں، لیکن رمضان المبارک میں خاص طورپر ان میں اضافہ ہوجاتاتھا۔ اس زمانے میں چونکہ آپ ﷺ معمول سے کہیں زیادہ گہرائی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کی محبت میں شدت آجاتی تھی۔ اس لئے آپ کی نیکیاں بھی عام دنوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھیں۔ جیسا کہ خود حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ عام دنوں میں فرض ادا کرنے کا جوثواب ملتا ہے، وہ رمضان میں نفل ادا کرنے پر ملتاہے۔ اس لئے آپ رمضان کے زمانے میں بہت کثرت سے نیکیاں کرتے تھے۔ یہاں حضورﷺ کے عمل میں سے دو چیزیں مثال کے طورپر بیان کی گئی ہیں۔ اسیروں کو رہا کرنا اورمانگنے والوں کو دینا۔
رسول اللہ ﷺ کے اس عمل کے بارے میں کہ آپﷺ رمضان میں ہرقیدی کو رہا کردیتے تھے۔محدثین کے درمیان بحثیں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً ایک سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم کی پاداش میں قید ہے تو اس کو محض رمضان کے مہینے کی وجہ سے رہا کردینا یا سزا نہ دینا کس طرح انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوسکتا ہے؟ ۔۔۔ اس بنا پر اس قول کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں۔ بعض محدثین کے نزدیک اس سے مراد جنگی قیدی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنے ذمے کا قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے ماخوذ ہوں۔ نبی ﷺ ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرکے ان کو آزاد کردیتے تھے۔ اس طرح کی بعض دوسری توجیہات بھی اس قول کی کی گئی ہیں۔۔۔ اگر غورکیا جائے تو اس کی ایک اورشکل بھی ہوسکتی ہے۔ مثلاً آج کل کے زمانے میں ایک طریقہ پیرول پر رہا کرنا ہے، یعنی قیدی کو قول لے کر رہا کردینا۔ قیدی کو اس امید پررہا کردیا جاتا ہے کہ وہ رہائی کی مدت ختم ہونے کے بعد خود واپس آجائے گا۔۔۔ وہ معاشرہ ایسا تھا کہ اس میں اس بات کا اندیشہ نہیں تھا کہ جس قیدی کو رہا کیا جارہاہے وہ یہ خیال کرے کہ اب مجھے کو ن پکڑتا ہے، کسی ایسی جگہ فرار ہوجائے گا، جہاں اس کو پکڑنا ممکن نہ رہے گا۔ وہ تو ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہوجاتا تھا تو خود آکر اس کا اعتراف کرتے تھے تاکہ ان کو سزا دے کر پاک کردیا جائے۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے مذکورہ عمل کی یہ شکل رہی ہو کہ حضورﷺ ایسے لوگوں کو ، جن کی سزا معاف نہ ہوسکتی تھی، رمضان کے زمانے میں مشروط طورپر رہا کردیتے ہوں تاکہ وہ رمضان کا مبارک زمانہ اپنے گھروں پر گزاریں۔
جنت ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کی آمد تک مسلسل سجائی جاتی ہے
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آنے والے سال تک (یعنی ایک رمضان کے خاتمے سے اگلے رمضان کی آمد تک ) سجائی جاتی ہے جب رمضان کا پہلا دن آتا ہے تو عرش کے نیچے ایک ہوا چلتی ہے جو جنت کے پتوں میں گزرتی ہوئی آہو چشم حوروں کے اوپر پہنچتی ہے۔ اس ہواکو پاکر حوریں کہتی ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنے ( نیکوکار ) بندوں میں سے ایسے شوہرعطا کر جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اورجن کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں۔(بہیقی)
اس ارشاد کے ذریعے نبی کریم ﷺ نے اہل ایمان کو یہ بتایا ہے کہ اگر تم رمضان کا زمانہ اللہ تعالیٰ کی پوری پوری فرمانبرداری کے جذبے سے اورگہرے تعلق کے ساتھ روزے رکھنے اوردوسری نیکیاں کرنے میں گزارو تو یہ کچھ نعمتیں جنت میں تمہارا انتظار کررہی ہیں۔