رمضان مبارک کے اہم تقاضے

رمضان مبارک کے اہم تقاضے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لفظی حیثیت سے غور کیا جائے تو ’’صوم‘‘ یا روزہ کا یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ انسان کھانا پینا چھوڑ دے، لیکن روزہ کی حقیقت اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ شریعت اسلامی کا مقصد یہ نہیں کہ انسانوں کو جوگ یا بے جا مشقت کی راہ پر ڈالا جائے، بلکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ جائز اور مباح چیزوں کو چھوڑنے کی تربیت حاصل کرنے کے بعد انسان کی قوت ارادی اس قدر مضبوط ہو جائے کہ حرام اور ممنوع امور سے بچنے میں اسے کسی طرح کی مشقت کا سامنا نہ ہو اور پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ وہ برائیوں سے دور رہے۔ نیز اس کے نفس میں کسی طرح کا احساس محرومی نہ ہو، بلکہ وہ اس یقین پر جما رہے کہ شریعت نے اسے جن برائیوں سے روک دیا ہے ان کا ارتکاب اصل میں انسانیت کی شان کے خلاف ہے۔ ایک حدیث میں نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ جو روزہ دار جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے اس کا کھانا پینا چھڑانے کی اللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں۔ (بخاری شریف)
بھوک پیاس کی مشقت کا حکم دے کر اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ روزہ دار کے اندر اس بات کا احساس بیدار ہو کہ فقیر و بے کس اور مفلوک الحال انسان زندگی کے دن کس طرح گذارتا ہے اور محنت مزدوری کرنے کے بعد بھی جس غریب کو پیٹ بھر کر کھانا میسر نہیں ہوتا وہ بھی امیروں کی طرح انسان ہے۔ بلاشبہ اس طبقہ کی محرومی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہے، ہم اسے سمجھ نہیں سکتے لیکن بیکسوں کی حرماں نصیبی کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں، پاس پڑوس میں کچھ ہمارے دینی بھائی ہیں اور کچھ ہمارے وطنی بھائی ہیں، لیکن ہم سب کے درمیان انسانیت کا رشتہ مشترک ہے اور اسلام نے اس کا بہت زیادہ احترام کیا ہے۔
روزہ کی فرضیت قدرے تاخیر سے ہجرت کے بعد ہوئی، اس کی حکمت واضح کرتے ہوئے علامہ ابن قیم ؒ نے لکھا ہے کہ مالوفات و مرغوبات کا چھوڑنا مشکل ہوتا ہے، اسی لئے جب مسلمان توحید، نماز اور دوسرے احکام کے پابند اور ان سے مانوس ہو گئے تو سن۲ھ میں انہیں فرض روزوں کا حکم دیا گیا تا کہ مسلمان اس کی بجا آوری میں کسی طرح کی تنگی محسوس نہ کریں اور اپنے آپ کو صبر و ایثار اور غمخواری و مواخات کا خوگر بنائیں، ان کی نظر اللہ کی مرضی کے حصول پر ہو اور کسی طرح کا کوئی دوسرا مقصود ان کے سامنے نہ ہو۔ (زاد المعاد، ۲/۲۹)
روزہ سے جو مادی و جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں ہم فی الحال انہیں نظر انداز کرتے ہیں، البتہ روحانی و معنوی فوائد پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ روحانی فوائد میں سب سے زیادہ اہمیت نفس کے تزکیہ اور تہذیب کو حاصل ہے۔ روزہ کے ذریعہ انسان کا نفس پاک ہوتا ہے، جذبات میں اعتدال اور روح میں بلندی پیدا ہوتی ہے، اسلامی اخوت کا احساس مضبوط ہوتا ہے، غریبوں کی دشواریوں کا اندازہ ہوتا ہے، طبیعت میں دوسروں کی مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، معاشرہ کی خرابیاں دور کرنے کے لئے عزم بیدار ہوتا ہے، اسی لئے اس مہینہ میں انسان نیک کاموں کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور ساتھ ہی وہ اپنے اعمال کا بھی جائزہ لیتا ہے کہ وہ شریعت کے مطابق ہیں یا مخالف؟
روزہ کے یہ وہ فوائد ہیں جنہیں عام طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے علاوہ اور کون سے امور اللہ تعالیٰ کو اس عبادت سے مطلوب ہیں اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ مذکورہ فوائد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اطاعت و بندگی کے جذبہ سے رضاء الٰہی کے حصول کیلئے روزہ رکھیں۔ اپنے اندر خدا ترسی، پرہیز گاری اور جاں نثاری کی شان پیدا کریں اور ساتھ ہی رب قدیر سے دعا کریں کہ وہ ہمیں اس عبادت کا بہترین اجر عطا فرمائے اور روزہ کے جملہ فوائد سے ہمیں بہرہ مند بنائے، آمین۔
اسلامی تعلیمات میں حسن سلوک، رحم و مروت اور ہمدردی و غمخواری کی تعلیمات بہت زیادہ ہیں اور یہ احکام صرف انسانوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ان کا دائرہ جانوروں تک وسیع ہے، ان تعلیمات میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پر جنت کی خوشخبری اور ان کو بے جا تکلیف پہنچانے پر جہنم کی وعید ہے۔ اس نوعیت کی تعلیمات سے اسلام میں رحم و مروت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ’’رحمن و رحیم‘‘ کی صفات ہر مومن کی زبان پر ان گنت بار آتی ہیں، جن کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ پیغمبر اسلام نبی اکرمﷺ کو ’’ رحمۃ للعالمین‘‘ کا لقب دیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی شخصیت اور زندگی میں وصف رحمت کی جلوہ گری بہت زیادہ ہے۔ قرآن کریم کو بھی ’’شفاء رحمت‘‘ کے وصف سے موصوف کیا گیا ہے، اسی طرح ’’اسلام‘‘ کا لفظ صلح و سلامتی سے ماخوذ ہے اور ان تمام پہلوؤں کو مجموعی طور پر ملحوظ کرنے سے اسلام کی روح اور اس کے مزاج کا اندازہ ہوتا ہے اور منصف مزاج انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس دین میں انسانی برادری کی فلاح و بہبود کو ہر چیز پر مقدم رکھا گیا ہے۔ جن تعلیمات و احکام میں بظاہر سختی محسوس ہوتی ہے ان کے نتائج بھی انسانوں کی ہمدردی و بہی خواہی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
جس طرح نعمت کی قدر مصیبت میں گرفتار ہونے کے بعد ہوتی ہے، اسی طرح آلام و احزان کا صحیح احساس ان میں مبتلا ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ ساحل پر بیٹھ کر موجوں کا نظارہ لطف انگیز ہوتا ہے، لیکن طوفان میں موجوں کے تھپیڑے برداشت کرنے والوں سے پوچھنا چاہئے کہ ان کے دل میں کیا گذرتی ہے۔ جو لوگ فقر و فاقہ اور محتاجی و بے کسی میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے دلوں پر جو گذرتی ہے اسے دوسرے لوگ آسانی سے محسوس نہیں کر سکتے اور اگر محسوس کر لیں تو پھر زندگی کا لطف و آرام بھی بھول جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے رزق و دولت میں بندوں کے مابین امتیاز و تفاوت رکھا ہے یہ چیز انسان آسانی سے سمجھ لیتا ہے، لیکن ایک شخص بے حساب دولت اور سامان راحت و تعیش کا مالک ہے اور اسی کے پڑوس میں دوسرا آدمی دانہ دانہ کے لئے محتاج ہے، دونوں کے مابین تفاوت کو سمجھنا اور ان کے احساسات کی گہرائی میں اترنا ایک حساس آدمی کا کام ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے مخلص و جاں نثار متبعین کے بارے میں منقول ہے کہ وہ لوگ کھانے پینے میں زیادہ کشادگی پسند نہیں کرتے تھے، بلکہ کبھی کبھی فاقہ بھی کر لیتے تھے تا کہ بھوک پیاس کی شدت اور محتاجوں کے دکھ درد کو محسوس کرنے میں آسانی ہو۔
ایک صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ مسلمانوں کی باہمی مروت، شفقت اور رحم دلی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر اس کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہو تو تمام اعضاء اس کی تکلیف و بے چینی محسوس کریں گے اور کسی کو بھی قرار و سکون نہ ہوگا۔ اس حدیث کی بلیغ تعبیر و تمثیل سے آپ مسلمانوں کے تعلقات کی گہرائی و مضبوطی محسوس کر سکتے ہیں، لیکن افسوس کہ ہم عملی طور پر مذکورہ فرمان نبوت سے بہت دور چلے گئے ہیں، لہٰذا اب ہماری کیفیت یہ ہے کہ دوسرے مسلمان بھائی کی تکلیف اور درد محسوس کرنے کے بجائے اس کے لئے رنج و غم کا سامان فراہم کرتے ہیں اور اسے اپنی تگ و دو کا ایک حصہ بنائے رہتے ہیں۔
اسلام ماہ رمضان کو مواخات و غمخواری کا مہینہ بتا کر ہمارے مابین اسی اسلامی اخوت کی روح بیدار کرنا چاہتا ہے جس کا تذکرہ مذکورہ حدیث میں ہے اور جس کا ایک نمونہ مدینہ منورہ میں مہاجرین و انصار کے مابین مواخات قائم ہونے کے بعد چشم عالم نے دیکھا تھا۔ روزہ کی حالت میں بندوں پر بھوک پیاس طاری کر کے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں غرباء و مساکین کے لئے نرمی و رحمدلی پیدا کرنا چاہتا ہے اور ان کے اندر اس احساس کو زندہ رکھنا چاہتا ہے کہ اللہ کی عظمت و کبریائی کے سامنے کسی کی بڑائی کی کوئی حقیقت نہیں، جس طرح باری تعالیٰ اپنی ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق کو اس کی روزی اور اس کا سامان زندگی مہیا کرتا ہے، اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ معاشرہ کے کمزور و نادار لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھو اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو تا کہ انہیں اپنی حرماں نصیبی کا احساس نہ ستائے۔
حضرت امام حسنؓ کے لڑکے عبداللہؓ سے کسی نے پوچھا کہ روزہ کیوں فرض ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ امیروں کو بھوک کی تکلیف کا احساس دلانے کے لئے تا کہ وہ اپنا بچا ہوا کھانا فقراء کو دے دیں۔ کسی حاجت مند کی ضرورت پوری کرنے پر شریعت میں جو اجر ہے اس کا اندازہ ابن عمرؓ کی اس متفق علیہ روایت سے ہوتا ہے جس میں یہ بیان ہے کہ جب تک مومن اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کوشاں رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی ایک متفق علیہ روایت میں یہ وعدہ ہے کہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے۔ غور کیجیے کہ ضرورت مند انسان کی مدد کا شریعت میں کیا درجہ ہے اور اس پر کتنے عظیم اجر کا وعدہ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کی مدد اور حاجت روائی کا وعدہ فرما رہا ہے تو پھر اسے اور کس چیز کی ضرورت ہو گی اور کیسے اسے کوئی اندیشہ یا خوف لاحق ہو گا۔
ایک متفق علیہ حدیث میں ارشاد ہے کہ بیوہ اور مسکین کی بھلائی کے لئے کوشش کرنے والے مومن کا درجہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
ایک صحیح حدیث میں رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی اس کثرت سے تاکید فرماتے تھے کہ خیال ہوتا تھا کہ اسے میرے تر کہ میں وارث بنا دیں گے۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں حضور اکرمﷺ نے حضرت ابوذرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب سالن پکاؤ تو شوربہ زیادہ کرو تا کہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری کرسکو۔
روزوں کے اختتام پر عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم ہے، اس کی وجہ حدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ صدقہ فطر کے ذریعہ روزوں کی پاکی اور غریبوں کے لئے کھانے کی فراہمی مقصود ہے، یعنی اگر روزہ میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو اس صدقہ سے دور ہو جائے گی۔ اسی طرح فقراء و مساکین کے لئے کھانے کا انتظام ہو جائے گا تو وہ بھی عید کی خوشی میں تمام مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔
اسلام نے غرباء و مساکین کی مدد کے لئے ایسی تعلیم پیش کی ہے کہ اگر اس کی پابندی کی جائے تو معاشرہ کے بے سہارا لوگوں کی مشکلات کا بڑی حد تک خاتمہ ہو جائے گا اور مفلوک الحال طبقہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کے دینی بھائی دکھ درد میں اس کے ساتھ ہیں۔ اسلام نے اس سلسلہ میں پہلا حکم زکوٰۃ کا دیا ہے، یعنی امیروں کے مال کی ایک متعین مقدار غریبوں کو سالانہ دی جائے گی، یہ اسلام کا ایک رکن ہے۔ امیروں کو صدقہ و خیرات کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح مختلف صورتوں میں مسلمان کفارہ ادا کرتے ہیں جن کے مستحق غرباء و مساکین ہی ہوتے ہیں، اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اسلامی شریعت نے نادار طبقہ کی کتنی رعایت کی ہے اور کس طرح ان کی غربت دور کرنے اور ان کی دل جوئی کرنے کا بندوبست کیا ہے۔
آج کی دنیا میں ہر کام غریبوں کی بہبود کے نام پر ہوتا ہے، لیکن اس طبقہ کی بدحالی و پریشانی ختم نہیں ہو پاتی، بلکہ یہ طبقہ مزید استحصال کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن اسلام نے کسی طرح کا پروپیگنڈہ کئے بغیر محتاجوں کی بہبود کا جو نظام قائم کیا ہے اس کی مثال اور کہیں نظر نہیں آتی۔ امام ابویوسف ؒ نے کتاب الخراج میں اور امام ابن الجوزی ؒ نے تاریخ عمرؓ بن الخطابؓ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر مدینہ کے ایک محلہ سے گذر رہے تھے، دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص ایک دروازہ پر بھیک مانگ رہا ہے، پوچھا کہ تم کون ہو اور کیوں بھیک مانگ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ یہودی ہوں، جزیہ اور خانگی خرچ کے لئے مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے متاثر ہو کر کہا کہ انصاف نہ ہو گا کہ ہم جوانی میں تم سے جزیہ لیں اور بڑھاپے میں تمہیں بے سہارا چھوڑ دیں، پھر اسے لے کر اپنے گھر گئے اور جو کچھ میسر تھا دیا، پھر بیت المال کے خازن کو لکھا کہ اس کے لئے اور اس جیسے دوسرے مجبوروں کے لئے اتنا وظیفہ مقرر کر دو کہ ان کی ضرورت پوری ہوتی رہے۔
مذہبی رواداری اور انسانی فلاح و بہبود کا نعرہ بلند کرنے والی آج کی دنیامیں آپ اس طرح کی مثال ڈھونڈ نہیں سکیں گے، آج سب کچھ نمائش و پروپیگنڈے کے لئے کیا جا رہا ہے اور غریبوں کو ادنیٰ فائدہ بھی حاصل نہیں ہو پاتا۔ ہمارے اسلاف نے جو معیار قائم کیا اس میں نمائش نہ تھی لیکن مجبور و بے سہارا لوگ مطمئن تھے، پھر بھی ہمارے ملک کا ایک طبقہ اسلامی حکمرانی کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کی ایسی تصویر آئے جس میں انسانیت نوازی و عدل پروری کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ آج کی متمدن دنیا اندھی نہیں اور غلط پروپیگنڈے سے وہ متاثر نہ ہو گی بلکہ ہر چیز کو اس کی اصل شکل میں دیکھنا چاہے گی، پھر بھی ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ اپنی شریعت کے احکام اپنی زندگی میں نافذ کریں اور اپنے کردار سے مخالفین کے منہ پر طمانچہ لگائیں۔
رمضان کا یہ مہینہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ خدا پرستی و تقویٰ شعاری اور انسانیت کا عملی پیکر دنیا کے سامنے پیش کریں اور استحصال و موقع پرستی کے کرب سے دکھی انسانیت کو سکون کی راہ دکھائیں۔

مزید :

ایڈیشن 1 -