سعد اللہ شاہ کی تروتازہ یادیں

سعد اللہ شاہ کی تروتازہ یادیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سعد اللہ شاہ ی بنیادی پہچان ایک شاعر کی حیثیت سے ہے۔ اس کے دادا حبیب تلونڈوی بھی اپنے دور کے مشہور شاعر تھے۔ وہ احسان دانش اور قتیل شفائی کا دور تھا۔ سعد کے دادا حبیب تلونڈوی کا یہ نعتیہ قطعہ تو بہت مشہور ہوا تھا۔ لوگ شاعر کو بھول گئے ،لیکن وہ نعتیہ قطعہ اب تک زبان زدِ خاص و عام ہے۔
ہر شعر مرا عشقِ نبیؐ کا ہے شرارہ
ہر نعت مری مسجد نبویؐ کی اذاں ہے
مَیں نعت کا شاعر ہوں مجھے فخر ہے اس پر
بازارِ سخن میں مری ہیروں کی دکاں ہے


حبیب تلونڈوی نعت نہیں لکھتے تھے، بلکہ نعتیہ اشعار کی صورت میں اپنے جگر کے ٹکڑے پیش کرتے تھے۔ ان کی نعت کی شاخ پر اشعار کی شکل میں جو تازہ بہ تازہ پھول کھلتے تھے۔ ان میں سے ہر پھول زبان اور عقیدت کے اعتبار سے آبِ کوثر سے دھلا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ سعد اللہ شاہ کو بھی شہرت اپنی خوبصورت شاعری کے سبب حاصل ہوئی مگر ان کی بیشتر شاعری رومانوی ہے۔ ان کی شاعری احمد فراز کی طرح دو آتشہ ہے ،جس میں غمِ دنیا بھی ہے اور غمِ یار بھی۔ اس مختصر کالم میں اُن کی شاعری کا تجزیہ کرنا مقصود نہیں۔ ویسے بھی اچھی شاعری کسی تعارف اور تعریف کی محتاج ہرگز نہیں ہوتی۔ میری اس بات کے ثبوت کے طور پر آپ براہ راست ہی سعد اللہ شاہ کے یہ اشعار پڑھ لیں۔
جہاں پھولوں کو کھِلنا تھا، وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا، تمہی ملتے تو اچھا تھا
وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا
کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے
پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں
لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
اے مرے دوست ذرا دیکھ مَیں ہارا تو نہیں
میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ
بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں
مَیں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا
تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا
نہ ملے ہو نہ فاصلہ رکھا
اس نے پوچھا جناب کیسے ہو
اس خوشی کا حساب کیسے ہو
مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو
کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو
سعد اللہ شاہ نے حالات حاضرہ کے حوالے سے سیاسی، معاشرتی اور ادبی سب ہی موضوعات پر بڑی خوبصورتی سے لکھا ہے، لیکن اخبارات میں شائع ہونے والی اس کی وہ تحریریں سب سے بڑھ کر پسند کی گئیں، جن کو اُس نے ’’ترو تازہ یادیں‘‘ کا عنوان دیا تھا۔ سعد اللہ شاہ کی ’’ترو تازہ یادیں‘‘ دلچسپ واقعات اور متاثر کن تحریر کا مرقع ہیں۔ یہ محض یادیں نہیں، بلکہ اس میں سعد اللہ شاہ نے اپنا پورا عہد محفوظ کر دیا ہے۔
یہ مری یادیں نہیں ہیں یہ زمانہ ہے مرا

سعد اللہ شاہ نے اپنی تروتازہ یادیں تحریر کر کے شخصیت نگاری کا ایک نیا انداز متعارف کروایا ہے۔ اس کی تحریریں کسی شخصیت کا پورے طور پر احاطہ نہیں کرتیں کیوں کہ یہ صرف ان دلچسپ حالات اور نہ بھولنے والے واقعات پر مشتمل ہیں جو براہ راست سعد اللہ شاہ کے سامنے رونما ہوئے ہیں۔ سعد اللہ شاہ نے اپنے دوستوں اور اپنے سے سینئر ادیبوں، شاعروں، کالم نگاروں، فنکاروں، ٹی وی پروڈیوسرز اور موسیقاروں کو جس طرح سے دیکھا اور جس طرح سے سمجھا اُسی طرح تکلف برطرف بیان کر دیا ہے۔ اس نے افسانے نہیں تراشے، جو تصویر جیسے نظر آئی ویسے ہی دکھا دی۔ بعض لوگ اپنی تحریروں کو دلچسپ بنانے کے لئے جھوٹے واقعات اور نمائشی الفاظ کا سہارا لیتے ہیں ،لیکن سعد اللہ شاہ کو اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ویسے بھی سچائی میں اپنی ایک خاص کشش ہوتی ہے۔ سچائی کو بیان کرنے کے لئے جرأت بہر حال بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ سچ لکھنے پر بیگانے ہی ناخوش نہیں ہوتے اپنوں کی ناراضگی بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔
پی ٹی وی کے ایک معروف پروڈیوسر نے حالات حاضرہ کے ایک پروگرام میں سعد اللہ شاہ کو بھی بطور تجزیہ نگار دعوت دی۔ وہ جنرل مشرف کی حمایت میں سعد اللہ شاہ کا نقطہ نظر ریکارڈ کرنا چاہتے تھے۔ سعد اللہ شاہ نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں بات کرنا میرے نزدیک جھوٹ کو حق بجانب قرار دینے کے مترادف ہے اور میرا ضمیر مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا۔ سعد کے لئے زیادہ اہم یہ نہیں تھا کہ اُس کی تصویر کچھ لمحات کے لئے ٹی وی سکرین پر نظر آئے۔ اس کے لئے زیادہ ضروری یہ تھا کہ وہ اپنے ضمیر کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔
شہر میں تقسیم دستاروں کی تھی کل ہر طرف
یہ کیا مَیں نے کہ اپنا سر بچا کر لے گیا
یہ واقعہ بیان کرنے سے میری غرض یہ تھی کہ سعد کو اگر ایک فوجی حکمران کے دور میں کسی بڑے دنیاوی فائدے کے لئے جھوٹ بولنا منظور نہیں تھا۔ اِسی طرح اُس نے اپنے زمانے کی یادیں تحریر کرتے ہوئے یا اپنے عہد کی بڑی ادبی شخصیات کے حوالے سے واقعات قلمبند کرتے ہوئے کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی۔ اس نے جہاں دوسروں کے حوالے سے اُن کی خوبیاں اور خامیاں بیان کرنے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیا وہاں اپنی کمزوریوں اور نقائص ظاہر کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ شخصیت نگاری میں کامیابی کا معیار بھی یہی ہے کہ انسان جب دوسروں کے عیب و ہنر اپنی تحریر میں بیان کرے تو اپنی شخصیت کو بھی چھُپا کر نہ رکھے۔ اِنسان جب مجموعہ ہی خوبیوں اور خامیوں کا ہے تو پھر خوا مخواہ ہر ایک کو فرشتہ ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کیوں کی جائے۔ سعد نے جِن شخصیات کے حوالے سے اپنی یادیں تحریر کی ہیں وہ فرشتے ہرگز نہیں ،مگر اُن میں خوبیاں زیادہ ہیں۔ اور ان کی خوبصورت یادوں کو سپرد قلم کر کے سعد نے اپنے زمانے کی پوری ادبی تاریخ کو محفوظ کر دیا ہے۔ سعد اللہ شاہ کے خوبصورت اور جان دار اندازِ بیان نے ان کی ترو تازہ یادوں کو اور بھی دلچسپ بنا دیا ہے۔ آپ سعد کی یادوں کی یہ کتاب پڑھیں گے تو حیرتوں میں ڈوبتے چلے جائیں گے۔ آپ بے پناہ لطف اندوز اور لذت یاب بھی ہوں گے۔ سب سے بڑی خوبی اس کتاب کی یہ ہے کہ آپ جب اس کتاب کو پڑھیں گے تو یہ یادیں آپ کو سعید اللہ شاہ کی نہیں بلکہ خود اپنی محسوس ہوں گی۔ آپ کا احساس یہ ہوگا کہ منیر نیازی، سیف الدین سیف، قتیل شفائی، مظفر وارثی، طفیل ہوشیارپوری، عطاء الحق قاسمی اور شہزاد احمد کی ملاقاتیں سعد اللہ شاہ سے نہیں ،بلکہ خود آپ سے ہوئی ہیں اور آپ خود ان تمام محفلوں، مجلسوں اور مشاعروں میں شریک رہے ہیں جن کا دلچسپ احوال سعد نے اپنے شوخ اور چنچل انداز میں تحریر کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے دوست جمیل احمد عدیل نے ’’تروتازہ یادیں‘‘ کو سعد اللہ شاہ کے ساتھ ساتھ بالواسطہ قارئین کی کتاب قرار دیا ہے۔ جس کتاب کو پڑھنے کے بعد قاری خود کو شریک مصنف سمجھ بیٹھے اُس کتاب کے معیاری اور شاہکار ہونے میں کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے۔

مزید :

کالم -