راہ دور عشق میں روتا ہے کیا

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
 راہ دور عشق میں روتا ہے کیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عوام ہیں کہ بجلی سے محروم، بجلی نہیں ہے تو پینے کے لئے اور استعمال کے لئے پانی نہیں۔ بنیادی ضرورت سے محرومی انہیں سڑکوں پر لے آتی ہے ، وہ ٹریفک میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں، ناداں اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ سندھ بھر میں اس طرح کے احتجاج عام ہیں۔ گرمی کا درجہ حرارت اکثر شہروں میں40اور 50تک پہنچ گیا ، ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ ہی رہا، جس کی وجہ سے گرمی میں شدت پیدا ہوئی، سانس لینے میں تکلیف ہوئی ، گھٹن ہوئی اور اموات ہوئیں۔ اموات کا شمار کیا کرنا ، لوگ تو مر گئے۔ اس ساری صورت حال میں جو افسوس ناک پہلو سامنے آیا وہ حکمرانوں اور وزراء کا معمول کا رویہ تھا۔ پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہہ دیا کہ جن شہروں اور اضلاع کے ذمہ بھاری رقمیں واجب الادا ہیں، وہاں بجلی زیادہ وقفے کے لئے بند رکھی جارہی ہے۔ اس و قفہ کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ اگر یہ وقفہ بیس گھنٹو ں پر مشتمل ہے تو اسے بڑھا کر چوبیس گھنٹے کر دیں تاکہ عوام ایک بار فیصلہ کر لیں کہ انہیں زندہ رہنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ 12سے 20گھنٹے کئی علاقوں میں تو بجلی کا بند رہنا معمول ہے۔ خواجہ آصف وفاقی حکومت کے ذمہ دار وزیر جانے جاتے ہیں، ان کی عمر اور تجربے کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ انہیں ہلکی بات نہیں کرنا چاہئے۔ وفاقی وزیروں کو الفاظ کا ایسا چناؤ کرنا چاہئے، جس سے عوام کی دِل شکنی نہ ہو اور ان کے زخموں پر نمک پاشی نہ ہو۔ ایک جانب آپ عوام کو ان کی ضرورت کی بجلی فراہم کرنے میں ناکام ہیں دوسری جانب آپ مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کرتے ہیں۔ کیسے وزیر ہیں ؟ وزراء اور عام بازاری لڑکوں کے درمیاں فرق تو ہونا چاہئے، لیکن خواجہ آصف ہوں یا خواجہ سعد رفیق، یا عابد شیر علی انہیں اول تو بیان دینے کی بجائے اپنے اپنے محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دینا چاہئے ۔ مثل مشہور ہے کہ عدالتوں میں جج بولتے نہیں ہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ اِسی طرح وزراء کو ہلکے بیانات زیب نہیں دیتے۔ ان کے بیانات ان کے محکموں کی کارکردگی کی صورت میں سامنے آنے چاہئیں۔

ہمارے وفاقی وزراء ہوں یا صوبائی وزراء ، انہیں بولنے کی بیماری زیادہ ہی ہے۔ ہر ایک کا مشغلہ اور شوق سیاست پر بیان بازی ہے۔ سیاست پر بیان بازی اکثر جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ اگر سندھ کے لوگ بجلی کی رقم کی ادائیگی میں ناکام یا نادہندہ ہیں تو پنجاب یا خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد نادہندگی کی بیماری کا شکار ہے، لیکن طعنے صرف سندھ کے عوام کے حصے میں آتے ہیں، کیونکہ خواجہ آصف ہوں یا عابد شیر علی، جنہیں سندھ کے لوگ پنجابی وزیر قرار دیتے ہیں، اپنے تئیں اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ(ن) کی پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے ساتھ سیاسی کشمکش کی وجہ سے تند و تیز بیانات جاری کرتے ہیں۔ ان کے عہدوں کا تقاضہ ہے کہ برد باری اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا کریں۔ ان کا یہ قدم لیگ کی نیک نامی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے بر عکس بات فضول ہے۔ ویسے بھی نواز شریف نے اپنی موجودہ حکومت کے دوران بھی سندھ کے عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کا کوئی جتن نہیں کیا۔ انہیں نتائج آئندہ کسی بھی انتخابات میں نظر آجا ئیں گے کہ لیگ کہاں کھڑی ہوتی ہے۔ پنجاب میں بھی لیگ کو مشکلات کا سامنا اس لئے کرنا پڑے گا کہ وزیراعظم کی ترجیحات عوام کی ضروریات اور فوری ضروریات کے ہم پلہ نہیں ہیں۔ میٹرو، لیپ ٹاپ ، موٹر وے، شہروں کے اندر سڑکوں کو چوڑا کرنے کے منصوبے اسی وقت پذیرائی حاصل کر سکتے ہیں جب عوام کو بجلی، پانی ، روز گار، انصاف، تحفظ میسر ہو۔ وزیراعظم اور ان کے وزراء اور ان کے مشیروں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں میں لوگ کیوں شریک تھے۔ یہ تو وزیراعظم کو ہی بتانا چاہئے کہ انہوں نے اپنی ایسی ترجیحات کیوں مقرر کیں، جن سے عوام الناس کو فوری فائدہ نہیں پہنچے گا۔


مُلک بھر میں اکثر شہروں میں لوگ بجلی کی عدم فراہمی پر مشتعل ہیں۔ بجلی کی عدم فراہمی انہیں بھوکا بھی تو مار رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بجلی کی طلب اور فراہمی کے درمیاں فاصلہ ہے۔ طلب زیادہ ہے اور پیداوار کم ہے۔ حکومت چاہے بھی تو اس فاصلے کو ختم نہیں کر سکتی۔ حکومت کے ذمہ دار وزراء نے کوئی قابل عمل حکمت عملی تیار ہی نہیں کی۔ کیا وہ شہروں میں بجلی کے استعما ل میں کوئی توازن پیدا کرا سکے۔ انہیں تو صرف یہ آتا ہے کہ صنعتی اداروں کو بجلی کی فراہمی معطل کردیں۔ یہ نہیں سوچا گیا کہ اگر صنعتوں کا پہیہ نہیں چلے گا تو معیشت پر کیا اثرات ہوں گے اور بے روزگاری میں کتنا اضافہ ہوگا۔ کیا سرکاری محکموں میں چلنے والے ایئر کنڈیشنوں پر پابندی عائد کر سکے۔ وزرا ء کو عوام کی تکلیف کا احساس اس لئے نہیں ہے کہ ان کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر بجلی ہر وقت موجود رہتی ہے۔ خواہ پورا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہو ، ان کے دفاتر اور گھروں پر سرکاری بھاری جنریٹر سرکاری خرچ پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے وزراء اور افسران کو کبھی بھی اس لئے احساس نہیں ہو سکتا کہ انہیں اس کا تجربہ ہی نہیں ہو پاتا ہے۔ انہیں بھی ذرا سا پسینہ نکلے، دھول مٹی میں وہ بھی رٹیں، تو انہیں احساس ہو گا کہ مُلک کے عوام کس طرح سخت تریں زندگی گزار رہے ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے وزارت بجلی کے سیکرٹری یونس ڈھاگا کی طلبی اور ہدایت جاری کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یونس محنتی اور نیک نام افسر ضرور ہیں، لیکن بجلی پیدا کرنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ نرگس سیٹھی جب سیکرٹری مقرر ہوئی تھیں تو دادو، جامشورو، کوٹری اور دیگر پاور ہاؤسوں کا اچانک دورہ کر کے ان کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کی ترکیوں پر غور کیا کرتی تھیں۔ اِسی سبب جو کچھ اضافہ ممکن تھا وہ ہوسکا۔ کراچی میں اس وقت سب سے اونچی عمارت صائمہ ٹریڈ ٹاور نجی جنریٹر پر چل رہی ہے، سندھ کے بعض شہروں میں کاروباری لوگ نجی بھاری جنریٹر لگا کر اپنے اپنے علاقوں میں بجلی فروخت کرنے کا کاروبار کر رہے ہیں، ہماری ڈسٹر ی بیوشن کمپنیاں ایسے کاروباری لوگوں کی کیوں نہیں ہمت افزائی کر سکتیں کہ وہ شہروں میں بجلی کی متبادل فراہمی کا نظام وضع کریں۔ یہ کمپنیاں ڈرتی ہیں کہ ان کی آمدنی میں کمی واقع ہو جائے گی اور وہ خسار ے کا شکار ہو جائیں گی۔ اپنے ان ملازمین کو تن خواہیں دینے کے قابل بھی نہیں رہیں گی جو اپنی ہی تھالی میں چھید کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خواجہ آصف اور عابد شیر علی کو کوئی خبر کرے کہ اکثر شہروں میں ایک ہزار روپے فی ایئر کنڈیشنر کے حساب سے ان کے ملازمین صارفین کو بجلی استعمال کرنے کی اجازت دیئے ہوئے ہیں۔ عملہ بھی چور، صارفین بھی چور۔ چوکیدار ناکارہ۔ کیا کرے گا قانون بے چارہ۔ بجلی کے بقایاجات کی وصولی کا کوئی ایسا نظام تو وضع ہی نہیں کیا جا سکا ہے، جو صارف کو پریشانی سے نجات دلا سکے۔ یہ وزراء کچھ کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی کو کچھ کرنے دینا چاہتے ہیں۔


1985ء سے کسی حکومت نے بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے کے لئے نتیجہ خیز کام ہی نہیں کیا۔ محمد خان جونیجو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو، پھر نواز شریف، پھر مشرف، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف (کسی نے سوچا کہ ان کا نام راجہ رینٹل کیوں پڑ گیا تھا) اور پھر نواز شریف وزیراعظم مقرر ہوئے۔ وعدے، تاریخیں سب نے دیں، لیکن بجلی کی طلب اور فراہمی میں توازن پیدا نہیں کیا جا سکا۔ بجلی کی اس عدم فراہمی نے پاکستان کو جس پڑے پیمانے پر معاشی نقصان پہنچایا ہے اس کا حساب کتاب کوئی حکومت تو کرتی۔ کوئی وزیراعظم حساب لگاتے کہ اس قوم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جنریٹر زیادہ فروخت ہوئے اور ہو رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ پٹرول اور ڈیزل کا بل بھی تو کئی گنا بڑھا جو پاکستانی زر مبادلہ پر اضافی بوجھ ہی بنا۔ یوپی ایس تھوک کے بھاؤ فروخت ہوئے اور ہو رہے ہیں، گاڑیوں میں لگائی جانے والی بیٹریوں کی کھپت میں گزشتہ دس سال میں اتنا اضافہ ہوا کہ چھ اور آٹھ ہزار والی بیٹری 18 ہزار روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ نہ معیار کا کوئی خیال ہے اور نہ ہی اس کی مدت استعمال پر کوئی توجہ ہے۔ یہ حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جب کوئی بحران ہو تو اہم ترین اشیائے ضرورت کے معیار اور قیمت پر توجہ رکھیں۔ کوئی سرکاری محکمہ ہے، جس نے دیکھا ہو کہ جنریٹر کس معیار کے بر آمد کئے جارہے ہیں، ان کے پرزوں کا کیا معیار ہے اور ایک جنریٹر پر کتنا منافع لیا جارہا ہے۔بس لوگ پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ خواجہ آصف اور عابد شیر علی کو اپنے ٹھنڈے دفاتر میں اور بہترین مہنگی تریں گاڑیوں میں گھومنے سے فرصت ملے تو وہ یہ دیکھتے۔ لوگ جب وزراء اور اراکین اسمبلی کو جون کے اس مہینے میں جب سڑکوں پر آگ برستی ہو، ایوانوں اور دفاتر میں سوٹ میں ملبوس دیکھتے ہیں تو انہیں اِسی طرح غصہ آتا ہے جیسا فرانس کے عوام کو ایک ملکہ کے یہ کہنے پر آیا تھا کہ جن لوگوں کو روٹی نہیں ملتی وہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ ملکہ کا یہ جملہ لوگوں کے لئے آگ بن گیا تھا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ صرف انقلا ب کی صورت میں سامنے نہیں آیا، بلکہ فرانس کے حکمران طبقے کی زندگیوں کے خاتمے کا سامان پیدا کر گیا۔یہ کبھی ضروری نہیں کہ جو لوگ کھڑے نہیں ہو تے وہ کبھی کھڑے نہیں ہوں گے یا کھڑے نہیں ہو سکتے۔ جب وہ لوگ کھڑے ہو گئے تو بہت ساری زندگیوں کے چراغ گل ہو جائیں گے۔

مزید :

کالم -