بھارت سے تعلقات ،وفاقی حکومت جنرل مشرف کو بھی شامل تفتیش کرے
تجزیہ : مبشر میر
متحدہ قومی موومنٹ کو جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں نئی زندگی ملی تھی ۔ پرویز مشرف ایم کیو ایم کو اپنی جماعت سمجھتے تھے اکثر کراچی کے دوروں کے دوران ایم کیو ایم کے بیشتر رہنماؤں کے ساتھ تفریح کے لمحات گزارتے تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد ، بابر غوری اور مصطفی کمال کو خصوصی قربت حاصل تھی۔ بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سوال پرویز مشرف سے کیا جانا چاہیے کہ ایم کیو ایم کے بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے وہ کیا جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت پر جاننے میں ناکام رہی کہ ایم کیو ایم کی مالی معاونت کون کون کررہا ہے اور ن کے کارکن کہاں تربیت حاصل کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف وفاقی حکومت اگر تحقیقات کرے تو سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے بھی تفتیش کی جانی چاہیے۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی حلیف جماعت بن گئی تھی۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کو ایم کیو ایم سے معاملات بہتر رکھنے کا خصوصی ٹاسک دیا گیا تھا، اس سلسلے میں وہ لندن کے اکثر دورے کرتے تھے۔ جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے درمیان بھی خصوصی تعلقات موجود ہیں۔ اس لیے یہ بھی ضروری ہوگا کہ تحقیقات میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ ایم کیو ایم کے قائد کے حوالے سے سابق صوبائی وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا نے کراچی پریس کلب میں سر پر قرآن پاک رکھ کر قسم اٹھاتے ہوئے انکشافات کیے تھے کہ وہ ملک توڑنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہوگا کہ ذوالفقار مرزا بھی شامل تفتیش کیے جائیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کو بھی صفائی کا بھرپور موقع ملنا چاہیے۔ اگر چند لوگ اس میں ملوث ہیں تو اس کی سزا پارٹی اور اس کے کارکنوں کو نہیں ملنی چاہیے۔ اگر ایم کیو ایم خود ملوث افراد کی پارٹی سے نکال دیتی ہے تو اُسے ہر سطح پر سیاست کی بھارت ہونی چاہیے ، قرین قیاس یہی ہے کہ آنے والے دن ایم کیو ایم کیلئے شدید مشکلات کے ہیں۔