مشرقِ وسطیٰ کا بحران

مشرقِ وسطیٰ کا بحران
 مشرقِ وسطیٰ کا بحران

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکہ کے صدرڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ سعودی عرب کے دوران میزبانوں نے ’’چشم ما روشن دِل ماشاد‘‘ کہتے ہوئے محاورتاً ’’نہیں حقیقتاً‘‘ صدر ٹرمپ کے راستوں پر آنکھیں بچھا دی تھیں اور ساتھ ہی ریاض میں اسلامی ممالک کے سربراہان کو بُلا کر اس تاثر کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی کہ وہ عرب ممالک کے خصوصاً اور اسلامی دُنیا کے بھی ’’بے تاج بادشا ہیں‘‘۔۔۔اِسی طرح صدرڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بھرپور طریقے سے آئی ایس آئی ایس اور ایران کے خلاف متحدہ محاذ بنانے میں کامیابی کا تاثر دیا اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں کو بھرپور تعاون کی یقینی دہانی کرائی،لیکن تجزیہ کاروں کے نزدیک دو سوال تھے کہ کیا یہ اتحاد موثر طریقے سے ایران کو ’’تنہائی‘‘ کا شکار کرنے میں کامیاب ہو گا؟ اور کیا سعودی عرب اسرائیل، فلسطین مسئلے کے حل کے لئے امریکہ کی مدد سے کوئی موثر کردار ادا کر سکتا ہے؟یا کرنے میں کامیاب ہو گا؟ کیا سربراہان اِس سمٹ کے اغراض و مقاضد سے پوری طرح متفق ہوں گے اور من وعن عملدرآمد کریں گے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ ریاض کے دوران سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لئے تجارتی اور عسکری نوعیت کے معاہدے طے پائے اور 110 ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت سعودی عرب کو جنگی سازو سامان فروخت کیا جائے گا جس پر فوری عملدرآمد ہو گا،جبکہ 350 ارب ڈالر کے طویل المدتی معاہدے طے پائے، اس سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی انتخابات میں کئے گئے وعدے پر عملدرآمد بھی ہو جائے گا کہ وہ امریکی عوام کے لئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گے اور بڑھائیں گے۔۔۔ ''Jobs-Jobs-Jobs'' ان کا انتخابی نعرہ تھا۔


اب تک ملنے والی تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کو جنگی بحری جہاز، ٹینک، اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم،مواصلات کا ایک مربوط نظام جس سے سعودی عرب کی حفاظتی اور انٹیلی جنس کارکردگی میں بہتری آ سکے گی، مزید برآں ٹریننگ، انتظامی ڈھانچے میں بہتری، توانائی کے لئے بھی تعاون معاہدوں میں شامل ہے۔ان پورے معاہدات کو ’’ ویژن2030ء‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ امریکی کمپنیوں بلیک سٹون کے ساتھ سعودی کمپنی ’’آرمکو‘‘ کے 50ارب ڈالرز کے معاہدے ہوئے، جس سے توانائی کے نئے ذرائع پیدا کئے جائیں گے تاکہ سعودی عرب کا تیل پر انحصار کم ہوجائے، اس کے علاوہ امریکی کمپنی لاک ہیڈ (Lockheed) ’’ایک سو پچاس‘‘ بلیک ہاک ہیلی کاپٹر دے گی۔ کچھ ’’معاہدے‘‘ ہیں اور کچھ ’’ایم او یوز ہیں۔۔۔لیکن کچھ ماہرین اِس شک کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کیا سعودی عرب کی موجودہ معاشی بحرانی صورتِ حال اِن اخراجات کی متحمل ہو گی؟ اگر معاہدات پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو سعودی عرب کی جنگی صلاحیت بھی بڑھے گی اور امریکی معیشت میں بھی استحکام پیدا ہو گا۔مشرقِ وسطیٰ کے اِس بحران میں پچھلے دِنوں امریکہ اور قطر کے درمیان معاہدہ طے پایا، جس کے تحت امریکہ قطر کو 12ارب ڈالر کے36 ایف 15 جنگی طیارے فراہم کرے گا جس سے قطر کی دفاعی صلاحیت بڑھے گی اور اس سے امریکہ اور قطر کے درمیان سیکیورٹی تعاون بھی بڑھے گا۔


عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان کی اس سمٹ میں شامل سب ایران سے متعلق اور اُسے تنہائی کا شکار بنانے میں عرب امارات اور مصر تو بہت پُرجوش تھے،لیکن ضروری نہیں تھا کہ سب ایسا ہی کریں گے جس کا اظہار فوری بعد ہو گیا اور قطر نے اعلان کر دیا کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھے گا، جس سے مشرقِ وسطیٰ کے ’’حالیہ بحران‘‘ نے جنم لیا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی قطر اور دیگر عرب ممالک کے درمیان کشیدگی کے دور آتے رہے، لیکن اِس بار سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کا ردعمل ’’سخت ترین‘‘ ہے۔سفارتی تعلقات ختم، قطری پاسپورٹ رکھنے والوں کو نکل جانے کا حکم، اشیائے خورو نوش کی فراہمی بند، فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی اور یہ بھی عندیہ دیا گیا کہ قطر پر جنگ مسلط کر دی جائے گی اور شیخ تمیم بن حامد الثانی امیر قطر کو تبدیل کر دیا جائے۔اس پر ردعمل کے طور پر ترکی کی پارلیمینٹ نے فوری طور پر3000فوجی قطر روانہ کرنے کی اجازت دے دی۔ ترکی کے طیب اردوان نے قطر پر ان پابندیوں کو غیر انسانی، غیر اسلامی قرار دے دیا۔ ایران نے بھی قطر کی ہر ممکن مدد کا اعلان کر دیا ہے۔ ایران نے خوراک کی فراہمی کے اعلان کے ساتھ قطر ایئر ویز کو اپنا شیڈول جاری رکھنے کے لئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ ان اعلانات اور اقدامات سے اُن اسلامی ممالک کے لئے بھی آسانی ہو گئی جن پر سعودی عرب اور امارات کا دباؤ تھا کہ وہ بھی قطر کے بائیکاٹ میں شامل ہوں۔


کویت نے بھی مصالحتی کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے، اِس سارے پس منظر میں بعض طاقتوں کی یہ کوشش ناکام ہو گئی جو مشرقِ وسطیٰ اور عالمی سطح پر ملت اسلامیہ میں دراڑ ڈالنے اور شیعہ سُنی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا ایک ہی مقصد اور مفاد ہے۔۔۔ ’’اسرائیل کی حفاظت‘‘۔۔۔ عرب ممالک پہلے ہی ’’پھینٹی‘‘ کھا چکے ہیں۔ آل سعود اور اسرائیل کے درمیان خفیہ معاہدوں کی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں، اب قطر ایئر ویز پر اپنی فضائی حدود بند کرنے کے بعد اسرائیلی جہاز حج کے لئے پہلی بار سعودی عرب کے لئے حاجیوں کو لے کر جائیں گے، یعنی آل سعود نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی طرف ایک قدم اٹھایا ہے۔قطر اور ترکی نے2011ء کے عرب انقلاب کی حمایت کی تھی۔2013ء میں سعودی عرب اور امارات نے مصر میں اخوان المسلمون کے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کی حمایت اور مدد کی تھی۔ 2011ء ہی میں سعودی عرب اور امارات نے بحرین میں انقلاب کی کوشش کو بے رحمانہ طور پر کچلنے میں بحرین کے حکمران کی مدد کی تھی۔عرب امارات کے وزیر خارجہ نے بیان دیا تھا کہ قطر کے خلاف ’’مزید کارروائی خارج از امکان نہیں ہے‘‘ جس کے فوری بعد ترکی نے 3000فوجی قطر بھجوا دیئے تھے۔ عرب امارات کے وزیر خارجہ کے بیان کے پس منظر میں مصر عرب امارات اور سعودی عرب کی لندن میں مقیم قطری اپوزیشن کی امداد اور مسلسل یہ خبریں اور اداریے ہیں، جن میں شیخ عبدالعزیز بن خلیفہ الثانی جو موجودہ امیر کے چچا ہیں ، کی امداد اور حمایت کی جاتی ہے کہ وہ جو قطر کے وزیر برائے تیل وخزانہ بھی رہے ہیں اور انہوں نے 2011ء میں قطری فوج کے بعض اعلیٰ عہدیداروں کی مدد سے موجودہ شیخ تمیم کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔ ابو ظہبی کے قومی اخبار نے لکھا ہے کہ نئی حکومت قطر کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی پالیسیوں کا حصہ بنائے گی، جن سے سعودی اتحاد کی قطر میں Regime Change کا عندیہ ملتا ہے، اس کے علاوہ موجودہ قطری حکومت کے مخالف اور قطری حکمران خاندان کے ایک فرد شیخ سعود بن نصر کا ایک بیان، جو مصری اخبارات نے شائع کیا جس میں انہوں نے قطری عوام کی طرف سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے عوام سے معافی مانگی اور کہا کہ قطر کے موجودہ حکمرانوں نے عرب اتحاد میں جو دراڑ ڈالی ہے، وہ اقتدار میں آ کر قطر کو دوبارہ عرب اتحاد کا حصہ بنائیں گے۔


قطر کے ایک اور ممتاز تاجر، جو حکمران خاندان سے بھی تعلق رکھتے ہیں، سلطان سعود القاسمی نے بھی بیان دیا ہے کہ قطری عوام بھی ’’تبدیلی‘‘ چاہتے ہیں۔ واشنگٹن میں مقیم سعودی امریکن لابی کے سلمان القاسمی نے بھی کھل کر کہا ہے، بلکہ دھمکی دی ہے کہ اگر قطر کی موجودہ روش اور پالیسی جاری رہی تو ان کا انجام بھی مصر کے منتخب صدر محمد مرسی جیسا کر دیا جائے گا، جن کی حکومت کے خلاف فوج نے کامیاب بغاوت کی (سعودی اور متحدہ عرب امارات کی مدد سے) اور وہ کئی الزامات میں جیل میں ہیں، جن میں اُنہیں سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ قطر اور ترکی سمجھتے ہیں کہ ترکی کے تین ہزار فوجیوں کے قطر میں ہونے اور دس ہزار امریکی فوجی جو مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے بڑے اڈے، یعنی قطر میں موجود ہونے سے اُن کے خلاف کوئی ’’ایڈونچر‘‘ نہیں ہو گا،لیکن ’’القاسمی‘‘ کا خیال ہے کہ امریکہ کے فوجیوں کی موجودگی اِس بات کی ضمانت نہیں کہ شیخ تمیم کو بزور طاقت اقتدار سے محروم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اُن کا خیال ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو کسی بھی اور مُلک کے خلاف ترجیح دے گا۔اس سے پہلے بھی2014ء میں تقریباً دس ماہ تک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کئے تھے،لیکن اس بار بہت سخت اقدامات اٹھائے گئے، مطالبات بھی بہت سخت ہیں، میڈیا کے تمام مراکز الجزیرہ ٹی وی العربی، الجدید بند کر دیئے جائیں، اخوان المسلمون کے تمام لوگ حماس اور اعظمی بشارہ جو قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے بہت قریبی ساتھی ہیں، کو قطر سے نکال دیا جائے۔فی الحال دونوں طرف سے ایک بھی قدم پیچھے ہٹنے پر آمادگی ظاہر نہیں ہوئی، قطر کے لئے اشیائے خورو نوش، یعنی خوراک کے متبادل ذرائع حاصل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ قیمتیں کنٹرول میں رہیں، قیمتوں کا چھت پھاڑ کر نکل جانا قطر کے امیر کے خلاف بغاوت کی وجہ بن سکتا ہے، لیکن ایران کے درآمد برآمد کے چیئرمین رضا نورانی نے کہا ہے کہ ایران اس معاملے میں قطر کی ضروریات پوری کرے گا اور ضرورت کی ہر چیز بارہ گھنٹے کے اندر ایران سے یا متبادل ذرائع سے قطر کو فراہم کی جاتی رہے گی۔ دوسری طرف دبئی اپنی گیس کی ضرورت کا40فیصد قطر سے حاصل کرتا ہے۔ بائیکاٹ کرنے والی ریاستیں بھی اپنی ایل این جی کی ضرورت کا60فیصد قطر سے حاصل کرتی ہیں۔ قطر اِس وقت دُنیا کا سب سے بڑا ایل این جی سپلائی کرنے والا مُلک ہے۔


سعودی عرب کی یہ کوشش بھی ہے کہ قطر سے فٹ بال ورلڈکپ2022ء کی میزبانی بھی چھین لی جائے، اِس الزام پر کہ یہ میزبانی حاصل کرنے کے لئے ’’رشوت‘‘ دی گئی ہے۔ بہرحال آنے والے دِنوں میں صورتِ حال عیاں ہو جائے گی کہ قطر کے ساتھ ایک بلاک بن جاتا ہے یا سعودی حمایت یا بائیکاٹ قطر کو شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ سعودی عرب کی یہ کوشش بھی ہے کہ قطر میں واقع ’’الحدید‘‘ جو کہ اِس وقت قطر میں امریکہ کا مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا اڈہ ہے اور دس ہزار فوجی وہاں مقیم ہیں، کو متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب منتقل کر دیا جائے۔اس وقت اِس سارے بحران کا فائدہ امریکہ کو ہے جس نے ایران کو ٹارگٹ کرنے کے لئے، جو اسرائیل کے لئے خطرہ بن سکتا ہے، اپنے مہرے کھیلنا شروع کر دیئے ہیں، ایک علیحدہ ادارہ ’’ایران آپریشن‘‘ کے نام سے قائم کر دیا گیا اور ایک ماہر ’’اِس خفیہ کھیل‘‘ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ مائیکل نام کا یہ سربراہ جو ’’ڈارک پرنس اور ’’ آیت اللہ مائیک‘‘ بھی کہلاتا ہے کو ایران کو غیر مستحکم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ سعودی بلاک اس کو ہر قسم کی مدد فراہم کرے گا۔ اس کے ذمہ بن لادن کی تلاش کرنے اور شکار کرنے کا ٹاسک بھی تھا۔ آئی ایس آئی ایس کے خلاف بھرپور جنگ اس کھیل کا نکتہ آغاز ہے جس میں آئی ایس آئی ایس سے موصل اور ’’رقاء‘‘ واپس لیا گیا اور اب پورا فوکس ایران پر ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ایران مشرقِ وسطیٰ میں مبینہ دہشت گردی کا ذمہ دار ہے اور بھارت کا الزام ہے کہ کشمیر میں بغاوت کا ماحول بنانے میں پاکستان کا کردار ہے(گو مائیکل ڈینڈریا(Michael Dandrea) نے ایک مسلم خاتون سے شادی کرنے کے لئے اسلام بھی قبول کر لیا ہے) لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ شیعہ گروپ حزب اللہ کے آپریشن چیف عماد کو دمشق نے قتل کرایا تھا جس میں ’’موساد‘‘ کا بھی کردار تھا۔ پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے، مائیکل کی نامزدگی میں امریکی سی آئی اے اور پینٹاگون کے اعلیٰ عہدیداروںMike Pompe سابقہ وزیر دفاعJames Mattis اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جنرلH.R.Mcmaster کا اہم کردار ہے جو ایران کے ایشو پر ہارڈ لائنر ہیں۔


مائیکل کے ذمہ ایران میں لسانی، مذہبی اقلیتوں کی مدد کرنا اور شام، یمن، لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروہوں کا خاتمہ بھی ہے تا کہ ایران کو اندر سے بھی اور باہر سے بھی کمزور کیا جائے، لیکن امریکہ کے ہی بحری پوسٹ گریجوایٹ سکول کے Afshon Ostovar کا کہنا ہے کہ ایران کا دب جانا ممکن نہیں، لیکن وہ لبنان میں حزب اللہ، فلسطین میں اسلامی جہاد اور عراق و یمن میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دے گا کہ امریکہ اور سعودی عرب کو وہاں ’’مصروف‘‘ رکھا جائے۔ بحرین میں شیعہ آبادی جو اکثریت میں ہے(گو حکمران سنی ہیں، لیکن اقلیت میں ہے) کو پھر سے بغاوت کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے۔2011ء میں بغاوت ہوئی تھی، لیکن سعودی عرب کی فوجی مدد سے اسے کچل دیا گیا تھا۔ اِسی طرح سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں جہاں سعودی عرب کی تیل کی پیداوار کا بڑا حصہ اور شیعہ آباد ہیں، وہاں بھی سعودی عرب کے لئے مشکلات پیدا کی جا سکتی ہیں۔اس سارے ماحول پر نظر ڈالیں تو مشرقِ وسطیٰ کا بحران صرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر یا قطر تک محدود نہیں ہے۔ اس سارے خطے میں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی جنگ ہے(امریکہ کے مفادات اور دلچسپی صرف اسرائیل کی حفاظت اور اس کے لئے ممکنہ خطرات کو کم کرنا ہے) اور مفادات کی یہ جنگ شاید صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہ رہے اور جنوبی ایشیا اور سنٹرل ایشیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے۔ بڑے دُکھ سے کہنا اور لکھنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں اب بھی ’’حال مست‘‘ کا ماحول ہے۔ حکومت میں رہنے اور حکومت گرانے میں سیاست دان اتنے مصروف ہیں کہ انہیں اِن ممکنہ خطرات کی پروا ہی نہیں اور اب ادارے بھی لپیٹ میں آ رہے ہیں،اُنہیں بھی متنازعہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ اللہ پاک سیاست دانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور پاکستان کی حفاظت فرمائے،جنہوں نے اپنا مستقبل پاکستان سے باہر محفوظ کیا ہوا ہے وہ تو اپنے اپنے ’’وطن‘‘ سدھار جائیں گے،لیکن ہم عوام؟۔۔۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عوام بھی ذاتی مفادات کی اس کشمکش میں ایک کے ساتھ ہیں یا دوسرے کے، اپنا مستقبل انہیں بھی یاد نہیں۔

مزید :

کالم -