مظفر ہاشمی ادب نواز شخصیت تھے!

مظفر ہاشمی ادب نواز شخصیت تھے!
مظفر ہاشمی ادب نواز شخصیت تھے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مظفر ہاشمی (مرحوم) سے تعارف صبح کی سیر کے دوران ہوا بورڈ آفس کے گراؤنڈ میں صبح کی نماز کے بعد واک کے لئے جاتا تھا مظفر ہاشمی صاحب جس گروپ کے ساتھ واک کرتے تھے ان میں بڑے نامور ادیب اور شاعر حضرات تھے اور اس گروپ کا اتوار کے روز ناشتہ کا پروگرام ہوتا اور باری باری یہ دعوت ایک دوست سے دوسرے دوست کے گھر منتقل ہوتی رہتی میرے کزن پروفیسر ہارون رشید اس گروپ میں شامل تھے انہوں نے ایک دن جناب ہاشمی صاحب کا ذکر کیا تو ان سے ملنے کا ارادہ کیا اور گراؤنڈ میں ہی ان سے تعارف ہوا اور باقی لوگوں سے بھی ہو گیا ہاشمی صاحب فرائیڈے اسپیشل پڑھتے تھے اس لئے میرا تعارف تو تھا بالمشافہ ملاقات گراؤنڈ میں ہوگئی یوں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا کراچی جماعتِ اسلامی کے دفتر میں جب بھی جانا ہوتا تو ان سے ملاقات لازمی ہوتی اور چائے کادور چلتا رہنایوں ان سے قربت بڑھتی گئی فرائیڈے سپیشل میں بلوچستان، ایران اور افغانستان کے حوالے سے میرے مضامین شامل ہوتے تھے زمانہ طالب علمی سے بلوچستان کے حالات میری نگاہوں میں ہے ۔قوم پرست پارٹیوں کو بنتے اور بکھرتے ہوئے دیکھا۔ ایران کے انقلاب پر گہری نظر تھی اور تمام تبدیلیوں کا ادراک تھا دوسری جانب افغانستان کے انقلاب ثور پر نگاہ تھی اور افغان قوم کی تاریخ بھی سامنے تھی، اس کے بعد مجاہدین کا ظہور اور ان کے اختتام پر بھی نظر تھی اور طالبان کا ظہور اور ان کا زوال بھی میرے سامنے کی بات تھی۔


جناب مظفر ہاشمی نے جب میں کراچی میں تھا تومجھ سے کہا کہ آپ کے ساتھ ایران کے انقلاب کے حوالے سے ایک نشست کا اہتمام کرتے ہیں آپ تشریف لائیں ہمارے ممبران سے ملاقات بھی ہو جائے گی اور سوالات بھی ہوں گے۔ کوئی 30 منٹ کا تجزیہ کریں باقی سوالات کا وقت ہوگا یوں ان کے ادارے میں مجھے صاحبان علم سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا یہ میرے لئے اعزاز کی بات تھی کہ میرے سامعین میں یونیورسٹی کے پروفیسر اور آغا خان ہسپتال کے بعض سینئر ڈاکٹر حضرات شامل ہوتے دسمبر کے مہینے میں اکثر کراچی جانا ہوتا تو وہ میرا پروگرام ضرور رکھتے۔ جب طالبان کی حکومت کا تختہ امریکہ نے الٹ دیا اتفاق سے کراچی میں تھا تو جناب ہاشمی صاحب نے دعوت دی کہ اس بدلتی ہوئی صورت حال میں آپ کا تجزیہ مطلوب ہے اور عصر کے بعد آپ جمعیت الفلاح کے آفس آ جائیں۔ ایک دلچسپ نشست تھی طالبان حکومت کے خاتمے نے عام لوگوں میں مایوسی پھیلا دی تھی اور تبدیلی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔


جب الفلاح بلڈنگ پہنچا اور نشست کا آغاز ہوا حاضرین پر ایک نگاہ ڈالی تو چہروں پر مایوسی کے آثار بڑے گہرے تھے، ایک بھرپور تجزیہ کیا اس کا سبب ہی یہ تھا کہ آپ مایوس نہ ہوں طالبان کو اٹھنے میں تقریباً دو سال کا عرصہ درکار ہوگا اس کے بعد یہ تازہ دم ہو جائیں گے اور دوبارہ امریکہ سے مسلح تصادم شروع ہو جائے گا افغان قوم کی تاریخ ہے کہ آگے بڑھ کر جارح سے جنگ لڑتی ہے اور اس کو شکست فاش دیتی ہے۔ مجھے کہنا پڑا کہ آپ مایوس نہ ہوں صرف انتظار کریں۔ پھر ایسا ہی ہوا اب امریکہ اپنے آخری انجام کی طرف بڑھ رہا ہے کہاں اس کا دبدبہ کہ وہ طالبان کو فنا کے گھاٹ اتارنے آیا تھا اور کہاں یہ مرحلہ کہ وہ طالبان سے مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنے کا منتظر ہے۔ یہ میری آخری نشست تھی ایک دو بار انہوں نے کہا کہ آپ کے ساتھ نشست کا اہتمام کرتے ہیں لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا جب انہوں نے پروگرام رکھا تو میرا ارادہ کوئٹہ کا تھا اور ٹکٹ لے چکا تھا اس لئے دوبارہ ادارے میں کوئی علمی نشست نہ ہو سکی۔ مظفر ہاشمی صاحب کی بدولت ادارے کی اہم شخصیات سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا یہ میرے لئے اعزاز کی بات تھی ایران کے انقلاب کے حوالے سے بعض دفعہ ان سے تبادلہ خیالات ہوتا رہتا تھا ان سے نوک جھونک بھی چلتی رہتی۔ کراچی میں اردو زبان کے حوالے سے ایک دلچسپ پروگرام تھا ہارون رشید، مظفر ہاشمی صاحب اور مجھے موقع ملا تو اس پروگرام میں شریک رہا۔

یہ ایک دلچسپ پروگرام تھا فلسطین فاؤنڈیشن کے حوالے سے ان کی جدوجہد کو کون فراموش کر سکے گا یوں وہ ایک مجاہد تھے جو مظلوم فلسطینیوں کی آواز تھے اور بڑے سرگرم تھے۔ وہ مجھے فلسطین فاؤنڈیشن کی مطبوعات بھی دیتے تھے اب میرے علم میں نہیں ہے کہ ان کی جگہ کون پر کرے گا وہ اس عمر میں بھی نوجوانوں کی طرح سرگرم تھے ان کا ادبی رجحان تھا اور شعر و شاعری سے بڑا لگاؤ تھا۔ ان سے موسم سرما میں میری ملاقات ضرور ہوتی تھی دسمبر یا فروری میں کراچی آنا ہوتا تو ان سے دفتر جماعت میں ملاقات ضرور ہوتی بعض دفعہ وہ مجھے گلشن اقبال چھوڑنے آتے تھے راستے میں بھی تبادلہ خیال ہوتا رہتا بعض دفعہ میسج میں فارسی کا شعر بھیجتا تو وہ فوراً جواب دیتے کہ ترجمہ کریں زبان یار من فارسی ومن فارسی نمی دانم ۔


جناب مظفر ہاشمی صاحب سے میری ملاقات مارچ میں ہوئی یہ آخری ملاقات تھی اور عید کے دن اس میسج کا انہوں نے فوراً جواب دے دیا۔ عید گزرنے کے بعد ہارون رشید نے مجھے فون کیا تو مصروفیت کی وجہ سے بند کیا اس طرح دو یا تین بار فون آیا تو ذرا اضطراب ہوا کہ کیا ہوگیا جب موبائل پر پھر آواز آئی اٹھایا تو مظفر ہاشمی کی رحلت کی خبر تھی یہ بڑے صدمہ کی خبر تھی اس خبر نے وہ تمام مناظر میری نگاہوں کے سامنے رکھ دیئے جو ان سے ایک طویل رفاقت کے تھے ایک لمحہ میں مہ و سال گزر گئے جماعت کے لئے بڑا نقصان ہے میرے لئے تو ذاتی نقصان ہے میں نے اپنے ایک مہربان اور مخلص انسان کو کھو دیا ہے ان کی نشست پر کوئی اور آ جائے گا مگر مظفر ہاشمی نہیں ہوگا۔ ان کی خالی نشست یاد دلاتی رہے گی دعا ہے کہ مہربان رب اس مخلص انسان کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لے اور خطاؤں سے در گزر کر لے ان کے چاہنے والوں سے اہل خاندان سے اور جماعت سے تعزیت کرتا ہوں اور اپنے آپ سے تعزیت کرتا ہوں۔

مزید :

رائے -کالم -