مزد وروں کی پارٹی پر اے ٹی ایم مشینوں کا قبضہ ،خان صاحب کچھ تو سوچئے

مزد وروں کی پارٹی پر اے ٹی ایم مشینوں کا قبضہ ،خان صاحب کچھ تو سوچئے
مزد وروں کی پارٹی پر اے ٹی ایم مشینوں کا قبضہ ،خان صاحب کچھ تو سوچئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہاکی چیمپئنز ٹرافی کے میچ میں بھارت نے پاکستان کو چار گول سے ہرا دیا ۔دو گول ہونے کے بعد ٹیم مینجمنٹ نے گول کیپر کو ہی باہر بٹھا دیا۔ موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خالی گول دیکھ کر بھارتی ٹیم نے مزید دو گول کر دئیے اور چار صفر سے مقابلہ جیت لیا۔
قارئین حیرت زدہ ہیں کہ خان صاحب کا تعلق تو کرکٹ کے کھیل سے ہے جس میں وکٹ کیپر تو ہوتا ہے گول کیپر کہاں سے آگیا، اعتراض بالکل درست ہے مگر یہاں کہانی مختلف ہے آئیں سمجھتے ہیں۔
تحریک انصاف نے جب پہلی بار پارٹی انتخابات کروائے تو الیکٹرونک میڈیا پر اسکی بھرپور تشہیر کی گئی ۔ کہیں موچی پارٹی کا صدر منتخب ہوا تو کہیں مزدور سیکرٹری جنرل ،غرض کہ جگہ جگہ عام آدمی پارٹی کے عہدوں پر نظر آنے لگا تھا اور یہ امید بننے لگی تھی کہ ہاں یہ عام آدمی کی۔ مزدور کی۔ کسان کی جماعت ہے اور تمام طبقات کی اس میں بھرپور نمائندگی ہے۔
2002 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف اگر چہ صرف ایک سیٹ ہی جیت پائی تھی جو کہ چئیرمین عمران خان صاحب نے میانوالی سے جیتی تھی مگر الیکشن لڑنے والوں کی اکثریت نظریاتی کارکنان پر مشتمل تھی ۔نہ ہی اس وقت تک atm کی سیاست کا غلبہ تھا نہ دوسری جماعتوں سے شامل ہونے والے فصلی بٹیرے۔ اتنی بڑی تعداد میں الیکشن لڑ رہے تھے۔ 2008 کی عام انتخابات میں میاں نواز شریف کے جھانسے میں آ کر الیکشن کا بائیکاٹ کر بیٹھے۔ 2013 کے انتخابات میں atms اور دوسری جماعتوں سے شامل ہونے والوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا جسے بہت سے ناقدین پاشا فارمولا کے نام سے جانتے ہیں۔اب حالات یہ ہیں کہ ایک طرف خان صاحب کو atm مافیا نے گھیرا ہوا ہے تو دوسری طرف الیکٹیبلز ہیں جنکے بغیر وزارات عظمیٰ کی شیروانی مشکل نظر آتی ہے۔
گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ گندہ ہے پر دھندہ ہے کے مصداق خان صاحب اپنی طبیعت کے خلاف ہر قدم اٹھا رہے ہیں جو انہیں شہر اقتدار سے قریب کر دے۔
2013 کے الیکشن میں ناکامی کے بعد عوامی احتجاج کا رستہ اختیار کیا گیا۔ سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کے بعد اس احتجاج میں پاکستان عوامی تحریک بھی شامل ہوگئی اور کہنے والے کہتے ہیں کہ جب تک ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنان دھرنے میں موجود رہے عمران خان صاحب کو نہ کبھی سامعین کی کمی درپیش ہوئی نہ ہی حفاظتی اقدامات کا مسئلہ رہا کیونکہ عوامی تحریک ان دونوں معاملات میں خود کفیل تھی۔
تحریک انصاف کے جو لوگ ہر طرح کے احتجاج میں سرفہرست رہے اور دامے درمے سخنے اپنے لیڈر کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے آج وہ دور دور تک نظر نہیں آتے۔ آج تبدیلی کے دعویداروں کی ترجیح الیکٹیبلز بن گئے ہےں۔ کارکنان کو بتایا جارہا ہے الیکشن وہ لڑینگے جنہیں الیکشن لڑنے کی سائنس کا پتہ ہوگا ۔یہ ساری باتیں خان صاحب کے ترجمان فواد چوہدری بتاتے ہیں جو کہ خود پیرا شوٹر ہیں۔ کبھی ق لیگ کے ساتھ تو کبھی یوسف رضا گیلانی کے مشیر رہے ۔ اب تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اتنے ممبران تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں کہ بنی گالہ میں ہونے والی میٹنگ ۔ بلاول ہاوس یا جاتی امراء کا اجتماع لگتی ہے۔
تبدیلی کا سرخیل حقیقی کارکن پس پردہ ہوتا جارہا ہے اور گھس بیٹھیے تحریک انصاف کے وارث بنتے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کو عوامی پذیرائی تو حاصل ہے مگر بحیثیت تنظیم بہت کمزور ہے ، آئے دن ڈسپلن کی شدید خلاف ورزیاں سامنے آتی رہتی ہیں ۔اس معاملے میں خان صاحب کو اپنے سیاسی کزن ڈاکٹر طاہرالقادری اور انکے کارکنان سے سبق لینا چاہیے جنکے نظم و ضبط اور قیادت و مشن کے ساتھ کمٹمنٹ کی دنیا مثال دیتی ہے۔
المیہ ہے کے خان صاحب نے الیکشن کے گراو¿نڈ سے اپنے اس نظریاتی کارکن کو باہر کر دیا ہے جو گول کیپر بھی تھا اور آپکی ڈیفنس لائن کو بھی سنبھال رہا تھا۔
متبادل کھلاڑیوں کے ذریعے کوئی ایک میچ تو جیتا جا سکتا ہے مگر آپ نے نمبر ون بننا ہے تو اپنے حقیقی کھلاڑیوں کے ساتھ میچ کھیلنا ہوگا۔نہیں تو اس طرح کے کھیل میں اپ سیٹ ہونا معمولی بات ہے۔ موسم بھی خراب ہوسکتا ہے ۔جانبدارانہ امپائرنگ بھی ہو سکتی ہے ۔ بال ٹیمپرنگ اور اسپاٹ فکسنگ بھی گیم کاحصہ ہے۔سنا ہی ڈوپ ٹیسٹ مثبت آجائے تو کھلاڑی نا اہل بھی ہوجاتے ہیں۔خان صاحب بحثیت کھلاڑی آپ یہ سب جانتے ہیں مگر ایک سیاستدان کے طور پر بھی آپ کو یہ سب جاننا چاہئے۔

۔۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -