حکومت اور اپوزیشن پارلیمانی آداب کا لحاظ رکھیں
ملک اس وقت سخت بحرانی کیفیت کا شکار ہے اس میں کچھ تو بیرونی عوامل ہیں اور زیادہ تر اندرونی،جو ہمارے حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان کے پیدا کردہ ہیں، جن کے باعث عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ میثاقِ معیشت کی تجویز سامنے آئی تو عوام کو قدرے سکون ملا کہ ہر دو قوتیں اب مل کر وطن ِ عزیز کو معاشی بحران سے نکالنے کی کوشش کریں گی، مگر تا حال یہ تجویز بھی آگے بڑھتی نظر نہیں آتی کہ مخالفانہ بیان بازی تھمے تو میثاق معیشت پر دھیان جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر محترمہ مریم نواز نے سعد رفیق کے گھر آمد کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت پر کڑی تنقید کی اور یہ بھی کہا کہ اپوزیشن مسائل کی درست عکاسی نہیں کر رہی ہے، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن میں بھی اختلاف رائے ہے۔ ادھر حکومتی وزراء اور خود وزیراعظم عمران خان ایسے سخت بیان دے رہے ہیں جو حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے منصب سے میل نہیں کھاتے۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کہتے ہیں موجودہ حکومت میں جمہوری رویے ختم ہورہے ہیں، معیشت ڈوب رہی ہے وہ دن دور نہیں جب قوم حکمرانوں کا احتساب کرے گی، جواب آں غزل کے طور پر تحریک انصاف کے سینئر مرکزی رہنما ہمایوں اختر خان فرماتے ہیں اپوزیشن کا قومی معاملات پر منفی رویہ کسی صورت بھی درست نہیں، ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں نقب لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ادھر عوام گو مگو کی کیفیت میں ہیں کس کی بات مانیں کہ کون درست کہہ رہا ہے جمہوری ممالک میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن ہمیشہ حکومت پر تنقید کرتی ہے اور ردعمل کے طور پر حکومت بڑے صبر وتحمل کے ساتھ اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب دیتی ہے، مگر ہمارے ہاں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا ہے اگر اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر حکومت ان کے جائز اعتراضات کا جواب بردباری سے دے تو بالآخر اپوزیشن بھی خیر سگالی کے طور پر مثبت رد عمل کا اظہار کرے گی، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف جو زبان اور الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں وہ ہر دو کے شایان شان نہیں اس لئے عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے عفریت کا سامنا کر رہے ہیں ان میں اضطراب پیدا ہونا فطری امر ہے۔
حکومت کا دعویٰ کہ کسی چور کو نہیں چھوڑا جائے گا، اپنی جگہ لیکن اب یہ مقدمات نیب اور عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جب تک کسی پر الزام ثابت نہ ہوجائے اس کے بارے میں حکومتی اصحاب بست وکشا د کی بیان بازی سے ان مقدمات میں مبینہ طور پر اثرانداز ہونے کا تاثر ملتا ہے،جو کسی بھی طرح قابلِ تحسین نہیں۔ حکومت کی اولین ترجیح ملکی اور عوامی معاملات پر ہونی چاہئے۔ حکومتی اراکین کی ذمہ داری ہے کہ وہ وزیراعظم اور حکومت کے اچھے اقدامات کو اُجاگر کریں، مگر وہ اپنی تمام تر توانائیاں اپوزیشن کے خلاف بیانات پر صرف کر رہے ہیں، جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی اراکین کو ابھی سیاسی تربیت کی ضرورت ہے کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان حکومتی اور پارٹی اراکین کے ئے تربیتی کورسز کا اجراء کریں تاکہ ان کو آداب سیاست اور امور حکومت انجام دینے کے اسرار ورموز سے آگاہی حاصل ہوسکے۔
یہی درخواست ہماری اپوزیشن اور سیاسی پارٹیوں سے بھی ہے کہ وہ بھی اپنے زیر اثر اراکین کو تلقین کریں کہ وہ حکومتی وزراء اور اعلیٰ منصب پر فائز شخصیات کے بارے میں غیر پارلیمانی آداب اور الفاظ سے اجتناب کریں۔ حکومت اور اپوزیشن کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ آج کے حکمران کل حزبِ اختلاف میں ہوسکتے ہیں اور آج کی اپوزیشن کل حکومتی بنچوں پر براجمان!
اس وقت اِس امر کی شدید ضرورت ہے کہ اپوزیشن اور حکومت مل بیٹھ کر ملکی و قومی مسائل کے حل کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ان امور پر مکمل ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں،جو ملکی استحکام اور عوامی بھلائی کے لئے ہوں یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ملکی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی سیاست دانوں نے بلا تفریق حکومت و اپوزیشن حقیقی مسائل کو تج کر شدت کے ساتھ ایک دوسرے کی بیخ کنی اور نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے تونتیجتاً پھر حکومت تیسری قوت نے کی ہے۔
”ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں“