تہکال واقعہ پولیس گردی کا بدترین واقعہ ہے،سینیٹر مشتاق احمد
پشاور (سٹی رپورٹر)جماعت اسلامی کے سنیٹر مشتاق احمد خان نے عامر تہکالے کے ساتھ پولیس رویے کو تیسرا افسوسناک واقعہ بتاتے ہوئے پولیس گردی قرار دیا ہے اور اسکے خلاف جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے، انکا کہنا ہے کہ آج صوبہ بھر میں خیبر پختونخوا جماعت اسلامی یوتھ کے زیر اہتمام پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیئے جائینگے، انہوں نے واضح کیا کہ پولیس ایکٹ میں جلد اصلاحات لائینگے کیونکہ موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ تھانوں کو مقتل گاہوں میں تبدیل کیا جارہا ہے، ہم اس واقعے کو کسی بھی طور نقیب اللہ محسود اور ساہیوال سانحہ کی طرح دبانے نہیں دینگے، سی ٹی ڈی کو کمپریہینسیو ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ نہیں بننے دینگے، آئی جی خیبر پختونخوا کے انکوائری کمیشن کو اس لیئے نہیں مانتے کیونکہ اس وقت پولیس خود فریق ہے اور پولیس کی انکوائریاں بہت دیکھیں ہیں وہ اپنے پیٹی بند کا ہر حال میں خیال رکھتے ہیں، اور ایسا ہم ہونے نہیں دینگے۔ ان خیالات کا اظہار سینیٹر مشتاق احمد خان نے گزشتہ روز پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔اس موقع پر انکے ہمراہ جماعت اسلامی یوتھ کے صدر صدیق پراچہ، جماعت کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری سید صہیب الدین کاکا خیل اور میڈیا کو آرڈینیٹر سید جماعت علی شاہ بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نہیں بلکہ اب یہ تحریک بحران اور تحریک مافیہ بن چکی ہے۔ کبھی چینی بحران، کبھی آٹا بحران، کبھی پٹرول بحران، جس دن سے یہ لوگ بر سر اقتدار آئے ہیں اللہ کی ناراضگی بھی قدرتی آفات کی شکل میں اس ملک کو گھیرے ہوئے ہے اور انکی وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانوں نے بھی عوام کا جینا محال کردیا ہے، اور رہی سہی کثر اب انکے مافیہ گروپس پوری کررہے ہیں جس میں خیبر پختونخوا پولیس بھی شامل ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی پولیس بھی مافیہ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جو اس صوبے کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ آئین میں انسانی حقوق بہت واضح طور پر لکھے گئے ہیں لیکن ملک میں بد قسمتی سے کچھ قانون نافذ کرنے والے ادارے آئین کے خلاف جاکر ماورائے عدالت اقدامات اٹھا رہے ہیں جو کہ ملک و قوم کے مستقبل کے لیئے تشویش ناک بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ عامرے کے ساتھ جو ہوا یہ خیبر پختونخوا میں پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل دو واقعات میں کے پی پولیس نے انسانیت کی تذلیل کی بلکہ اسے مار ڈالا۔ شانگلہ میں ایس ایچ او نے ایک ٹرک ڈرائیور پر اتنا تشدد کیا کہ اسکی موت تھانے میں ہوئی اور پھر اسے خودکشی کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی گئی، اسی طرح عرفان اللہ جو کے سکول کا استاد منتخب ہوچکا تھا کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے غائب کیا اور پھر اسے قتل کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عامر کے ساتھ پولیس نے اپنے یکے بعد دیگرے تیسرے واقعے میں انسانیت کی وہ تذلیل کی جسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے تھانے مقتل گاہ اور ٹرارچر سیل بنتے جارہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ سینیٹ میں نوجوان عامر کے ساتھ پیش آنے والے اس افسوس ناک واقعے پر بات کی تو چیئرمین سینیٹ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس حوالے سے جوڈیشل انکوائری کرانے کے مطالبے سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو غیر سیاسی، جوابدہ، اور خود احتساب ادارہ بنانے کے لیئے پولیس ایکٹ بنایا گیا لیکن اسکی خامیاں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں اور جلد اس میں اصلاحات لائینگے۔ صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت ہے کہ آج تک پبلک سیفٹی کمیشن نہیں بنایا جاسکا، کے پی پولیس ایکٹ کے سیکشن 143میں عمل درآمد کمیشن کا ذکر ہے، اسکا تاحال کوئی چیئر مین ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی جی کی جانب سے بنایا گیا تین رکنی کمیشن ایک مزاق ہے اسکے علاوہ کچھ نہیں، اب تک کے ان تین بڑے واقعات جن میں پولیس فریق ہے ان پر مکمل غیر جانبدار جوڈیشل انکوائری کی ضرورت ہے کسی پولیس کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کرینگے اور نا ایسا ہونے دینگے۔ خیبر پختونخوا پر اس وقت نا اہل اور نالائق ٹولہ بر سر اقتدار ہے اور یہ صوبہ سیاسی اشرافیہ کی نا اہلی کا شدید شکار ہوتا جارہا ہے۔