بنگلہ دیش۔۔ ترقی کا راز (2)
بنگلہ دیش میں دوائیں نہ صرف سستے داموں عوام کوفراہم کی جاتی ہیں بلکہ اس نے دوا سازی کی صنعت میں خودکفالت حاصل کرنے کے بعد سو سے زائد ملکوں کوان کی برآمد بھی شروع کردی ہے۔ بنگلہ دیش کے 2006 میں نجی دورے کے دوران ایک بڑی دوا ساز کمپنی کے مالک سے کھانے پر ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان میں دوا ساز کارخانے لگانا چاہتے تھے لیکن طالبان کے خوف سے ان کی ہمت نہ ہوئی چنانچہ انہوں نے امریکہ میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا۔ پاکستاں میں سرمایہ لگانے کے خواہش مند سرمایہ کاروں پر طالبان کی یہ دہشت بیس سال سے زائد عرصے سے طاری ہے جس کے سبب خود پاکستانی سرمایہ کار بھی دوسرے ملکوں میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو طالبان نہ صرف ملک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ رہے ہیں بلکہ انہوں نے ملک کو 80 ہزار نعشیں دے کر جن میں دوجرنیلوں اورسینکڑوں افسروں سمیت سات ہزار فوجی شہیدوں کی نعشیں بھی شامل ہیں ملک میں زبردست تباہی پھیلائی ہے۔ پشاور میں آرمی اسکول کے تقریبا ڈیڑھ سو بچوں کی شہادت کا ذکر کریں تو کلیجہ ویسے ہی منہ کو آتا ہے۔
بنگلہ دیش کو مذہبی جماعتوں کی بغل بچہ ایسی کسی تنظیم کی جانب سے جو ان کے آئین کو ہی نہ مانتی ہو اتنے بڑے پیمانے پر ایسے کسی مسئلے کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔بنگلہ دیش نے انٹرنیٹ اور سیاحت کے کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی زبردست ترقی کی ہے جس کا اندزاہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس کی سبزیاں تک امریکہ کو برآمد کی جاتی ہیں جبکہ جرمنی بنگلہ دیش سے سیلاب کے بچاؤکے طریقے سیکھ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی ترقی کی بنیاد بہرحال گارمنٹس کی صنعت میں اس کی غیر معمولی چھلانگ ہے۔ اس کے علاوہ جن دیگر عوامل نے بنگلہ دیش کے حالات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل آبادیوں کی یکساں زبان اور ثقافت ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح کو بھی بنگلہ دیش توازن کی سطح پر لانے میں کامیاب رہا ہے جس سے بچوں کی شرح اموات میں کمی ہوئی ہے اور صحت سے متعلق اعداد وشمار کے دیگر پیمانے بھی قابل تعریف سطح پر آگئے ہیں۔
بنگلہ دیش کی ترقی کا ایک عنصر یقینا اس کے محدود دفاعی اخراجات بھی ہیں۔ اس کی فوج کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی تقسیم کے وقت پاکستانی فوج کی تھی، یعنی پچاس ہزار۔ شروع شروع میں بنگلہ دیش میں بھی فوج کا سیاست میں عمل دخل رہا لیکن اب فوج کا بڑا حصہ زیادہ تر اقوام متحدہ کی ڈیوٹی پر رہتا ہے جس سے فوجی بھی خوش حال رہتے ہیں اور ملک کو بھی زرمبادلہ کی آمدنی ہوتی رہتی ہے۔ محدود دفاعی اخراجات کا لیکن ایک منفی پہلو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کو ہندوستان کے انگوٹھے تلے دب کر رہنا پڑتا ہے اور اگرچہ ہندوستان اس کے حصے کا دریا کا پانی ناجائز طور پر استعمال کرتا چلا آرہا ہے لیکن بنگلہ دیش چوں چراں سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا جس کے جواب میں میٹھے وعدے کئے جاتے ہیں جن پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوتا۔ معاشی استحکام حآصل کرنے کے بعد اب بنگلہ دیش نے ہندوستان کے دباؤ سے نکلنے کے لئے چین سے روابط بڑھانے شروع کئے ہیں اور پاکستان سے تعلقات بحال کرنے کے آثار بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔
ترقی کے معاملے میں بنگلہ دیش سے تقابل کرتے وقت یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش نے اگر معاشی ترقی کے معاملے میں پاکستان کو پچھاڑا تو کرپشن کے معاملے میں بھی پاکستان سے آگے نکل کر دنیا میں پہلا مقام حاصل کر چکا ہے، یعنی یہ کہ کرپشن ملک کے اندر دولت کی تقسیم میں ناانصافی کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ہاں البتہ پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے نام پر سیاسی مخالفین کی زندگی کا دائرہ تنگ کرنے کی مہم ملک میں سیاسی عدم استحکام کا باعث ضرور بنی ہے جو سرمایہ کاری کے لئے کسی طور پر موزوں نہیں تھا۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ دہشت گردی کے خوف سے خود پاکستانی سرمایہ کار بھی دوسرے ملکوں میں اپنا سرمایہ لگانے کو ترجیح دے رہے ہوں۔(ختم شد)