آپ سے تم، تم سے تُو۔۔۔ 

    آپ سے تم، تم سے تُو۔۔۔ 
    آپ سے تم، تم سے تُو۔۔۔ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پچھلے ہفتے عمر میں چودہ پندرہ سال چھوٹے ایک پرانے ہمکار فون پر ’آپ‘ کی بجائے ’تم‘ کہہ گئے تو عجیب حقارت کا احساس ہوا۔ سبب ہے ایک مدت سے ہر چھوٹے بڑے کو برابری کے لہجے میں مخاطب کرنے کی میری عادت۔ اِسی پر ایک مرتبہ چودھری حلیم آف مراڑہ، تحصیل ظفر وال نے ڈانٹا تھا کہ تم کمی کمینوں کی طرح ہر وقت ’جی جی‘ کیوں کرتے رہتے ہو۔ دوسرے یہ کہ ڈھلتی عمر میں جو انسان مالی کمزوری کا شکار بھی ہو وہ اپنے بارے میں زیادہ حساس ہو جاتا ہے۔ کون کرسی سے اُٹھ کر مِلا، کِس نے بیٹھے بیٹھے ڈھیلا سا ہاتھ آگے کر دیا، کِس نے چائے کا پوچھا اور کہاں سُوکھی مسکراہٹ مِلی۔ میری طرح اگر آپ بھی مشکوک سماجی رتبہ رکھتے ہیں تو جان چکے ہوں گے کہ روزمرہ تجربات سے پھوٹنے والے اِن سوالوں میں کیا کیا نزاکتیں چھپی ہوئی ہیں۔


 ’جی جی‘ کرنے کی عادت کب پڑی اور کیوں؟ یہ ہسٹری شیٹ کھولوں تو اسکول کے زمانے میں ہماری بات چیت کا انداز وہی سمجھ لیں جو شہری آبادی کے متوسط گھرانوں میں ہوا کرتا ہے۔ دوسروں کے لیے واحد کی جگہ صیغہ ء تکریمی بھی استعمال کر لیتے مگر اِس کا دائرہ والدین، اساتذہ اور چند دیگر بزرگوں تک رہا۔ کالج میں قدم رکھنے کی دیر تھی کہ طرزِ تخاطب میں یکایک ابا ٹائپ رویہ اپنانے کو جی چاہنے لگا۔ پیدائشی لیڈرانہ مزاج رکھنے والے شوکت نواز کی یہ مستقل ہدایت نہیں بھولتی کہ میٹنگ میں جائیں تو سب مجھ سے ایک ایک قدم پیچھے رہیں اور ہاں، مجھے شوکت نہ کہنا، سردار صاحب کہنا۔“ رفتہ رفتہ حسن اختر، محمد اکرم اور جاوید ایتھلیٹ بھی راجہ صاحب، قریشی صاحب اور خاں صاحب ہو گئے اور اللہ کے فضل سے آج تک ہیں۔


 یوں آپ جناب کی اِس عادت کے پیچھے بڑوں جیسی تمکنت کی خواہش تو تھی ہی۔ ساتھ اپنے دل میں اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن کے لیے ووٹ پکے کرنے کا جذبہ بھی عود کر آیا۔ چنانچہ ہم مکتبوں کے لیے صاحب کا لاحقہ اور ساتھ ہی ذرا سا جھُک کر دو نوں ہاتھوں سے مصافحہ۔ آپ مجھ پر کسی بھی نفسیاتی کامپلیکس کا لیبل چپکا سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے کالج کا باضابطہ الیکشن ایک ہی بار جیتا اور یہ جیت اُس خفیہ ڈیل کی بدولت ممکن ہوئی جس کی رُو سے ہم نے اپنے ہی سردار سے دغابازی کی تھی۔ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنی عوامی مقبولیت کی خواہش کو کچھ اَور کھرچنا پڑے گا تاکہ پتا چلے کہ نو عمری میں یہ لسانی رویہ کیا مادری زبان پنجابی کے عطا کردہ پیرایوں سے پھوٹا تھا یا اُن کے خلاف ردِ عمل کے طور پر۔ 


 میرے دوست اور ایم اے او کالج لاہور کے مرحوم پرنسپل طاہر یوسف بخاری بتاتے تھے کہ وسطی پنجاب کی روزمرہ میں صیغہءِ تکریمی کی روایت زیادہ پرانی نہیں۔ خود مجھے یاد ہے جب ہم دادی کی والدہ کو بے بے کہہ کر بلاتے اور ’تونہہ‘ کا صیغہ استعمال کرتے۔ ایک روز ’تُسیں‘ کہہ دیا تو سننا پڑا تھا کہ ”ایہہ بچے شہری بولی بولدے نیں۔“ بے بے کو کون سمجھاتا کہ پنجابی میں خاتون کی تکریم کی خاطر جب واحد کی جمع بناتے ہیں تو لسانی طور پر خاتون کی صنف بھی بدل دی جاتی ہے۔ یارِ عزیز قاضی آفاق حسین گواہ ہیں کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہم دونوں صبحدم پروفیسرز روم کی راہداری میں جب پولیٹکل سائینس کی سینئر استاد پروین شوکت علی کو دیکھتے تو منہ سے ’سلام علیکم ڈاکٹر صاحب‘ ہی نکلتا۔ جواب میں وہ کہتیں ’سلام علیکم پروفیسر صاحب‘ اور ہم خوش ہو جاتے۔


 لاہور کے گرد و نواح میں مادری زبان بولنے والوں سے مِلیں تو عزت دینے کی خاطر جمع کا صیغہ محض مردوں کے لیے ہے۔ اگر گرائمر کی مدد سے عورت کی عزت کرنا چاہتے ہو تو پہلے اُسے مرد کا درجہ دو۔ اسی لیے ابھی تک خواتین کے عہدے کے ساتھ صاحب کا لاحقہ ہی سننے کو ملا۔ جیسے ”ڈاکٹر صاحب آگئے نیں۔ امی جی پنڈی تو آئے سن۔ آپا جی کل چلے جان گے۔ تو کیا لوگوں کی عزت کرنے یا نہ کرنے کا ساختیاتی مسئلہ فقط پنجابی سے وابستہ ہے؟ زاویہ بدل کر دیکھیں تو اردو میں بھی یہ پیرائے ایک الگ مزا دیں گے۔ وجہ یہ کہ نوعمری میں واہ کینٹ میں والد کے رامپوری، مراد آبادی اور شاہجہاں پوری دوستوں سے گِلوری منہ میں سیٹ کرکے پان کی پِیک تھوکے بغیر مکالمہ کرنا سیکھ لیا تھا۔ ساتھ ہی چند ایک اَور تہذیبی حربے۔


 اوّل یہ کہ سلام کے بدلے ’وعلیکم السلام‘ کہنے سے حفظ ِ مراتب کا کوئی تنازعہ نہیں اٹھتا۔ اِس کے برعکس اگر آداب کہا جائے تو جواب دیتے ہوئے مکتوب الیہ کی سینیارٹی ڈسٹرب ہو جانے کا ڈر ہوا کرتا ہے۔ اِسی لیے اپنے برابر والوں کو جواب میں بھی آداب ہی کہیں گے لیکن اپنے سے چھوٹوں کے لیے ’جیتے رہو‘ بلکہ ’جیتی رہو‘ کیونکہ بڑوں کو سلام کرنے میں لڑکیاں پیش پیش ہوتی ہیں۔ یہاں پہنچ کر یہ نہ سمجھیے کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ پتا تو جب چلے گا کہ ایک لاہوری دوست کے بقول ”جدوں میں شیشے نوں آئینہ کہواں گا۔‘‘ مراد یہ ہے کہ ’تم‘ کے مقابلے میں ’آپ‘ محض احترام کا صیغہ نہیں، تکلف کا اشارہ بھی ہے۔ جیسے کسی کے ساتھ فاصلہ رکھا جا رہا ہو اور وہ بھی شعوری کوشش سے۔


 اگر یہ نکتہ آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو مطلب یہ ہے کہ آپ نے چالیس برس پہلے بی بی سی اردو میں کام نہیں کیا۔ لندن پہنچتے ہی سینئر رفقا میں سے محمد غیور، سارہ نقوی اور سید راشد اشرف نے مجھے اُسی اپنائیت سے ’تم‘ کہا جیسے کوئی اپنے بچوں سے کہتا ہے۔ آغوش ِ محبت تو اطہر علی، رضا علی عابدی، آصف جیلانی اور 1942 ء میں گیارھویں سکھ رجمنٹ میں کمیشن پانے والے یاور عباس نے بھی وا کیے رکھی۔ فرق اتنا ہے کہ یہ چاروں بزرگ ہر چھوٹے بڑے کو زیاد ہ تر ’آپ‘ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ یوں یہ طے کرنا ممکن نہ رہا کہ ہماری بے تکلفی کا گراف اوپر جا رہا ہے یا نیچے۔ ٹف ٹائم پروگرام سیربین والے وقار بھائی مرحوم نے دیا جو شروع کے دو سال مجھے ’شاہد ملک صاحب‘ کہہ کر میری توہین کرتے رہے۔


 یہ کم آمیزی اِس لیے کھلتی کہ وقار بھائی سینئر ساتھی اطہر علی کی طرف سے صیغہ تکریمی جواب میں اُنہیں صرف ’اطہر‘ کہہ کر بلایا کرتے۔ جنرل ضیا دَور کی وہ شام اچھی طرح یاد ہے جب پاکستان میں نئی نویلی روحانی شخصیات کے ذکر پر میرے منہ سے نکلا کہ عہدِ جبر میں تصوف زیادہ ترقی کرتا ہے۔ وقار صاحب پھڑک اٹھے اور ایک سے زیادہ مرتبہ کہا کہ ”میاں، کیا بات کہہ دی ہے۔“ اُس دن ہمارے درمیان ’من و تو‘ کے حجابات اُٹھنے لگے تھے۔ چند شامیں اَور گُزریں تو پھر یہ کسی کو یاد ہی نہ رہا کہ ’جناب‘ اور ’صاحب‘ کا تکلف کس ذاتِ شریف کے ساتھ برتا جا رہا تھا اور کیوں۔ ہم کہاں کہاں گئے؟ کِس کِس سے ملے؟ سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں اُنہیں کب کب گھر ڈراپ کیا؟ اچھے بچے اِس کا حساب نہیں رکھتے۔
 جب انہوں نے ایک سہ پہر پہلی بار ’تم‘ کہا تو کیا آنند ملا ہے، اِسے وقار زدگان ہی سمجھ سکتے ہیں۔
 

مزید :

رائے -کالم -