نوجوان نیگروز سفید فام کی ایڑی تلے سسک سسک کر تنگ آ چکے تھے اور اب ہر قسم کے نتائج سے بے پرواہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے
مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان
قسط:126
بے حد حیرانی کی بات ہے کہ اپنی تمام تر ذہانت اور جرمنی کے تمام معاملات میں قوت اختیار کے باوجود تمام یہودی تقریباً مسحور ہو کر اپنے قتل کا خوفناک منصوبہ بنتے دیکھتے رہے حالانکہ یہ منصوبہ راتوں رات وجود میں نہیں آ گیا تھا۔ آج بھی جب کوئی یہودی ہٹلر کے متعلق سوچتا ہے کہ اگر وہ ساری دنیا فتح کر لیتا جیسا کہ وہ چاہتا تھا تو کانپ جاتا ہے۔
اس سبق کو یہودی کبھی نہیں بھولیں گے۔ اب وہ ہر نئی نازی آرگنائزیشن جو وجود میں آتی ہے تو یہودی انٹیلی جنس اس کی نگرانی کرتی ہے۔ جنگ کے فوراً بعد Jews, Haganah نے برطانوی حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اور انہیں چت کر دیا اور برطانیہ نے فلسطین کو اس کے حقیقی مالک عربوں سے چھیننے کے لیے یہودیوں کی مدد شروع کر دی۔ یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا یعنی اپنا ملک……اور یہ ایسی چیز ہے جس کا دنیا کی ہر نسل احترام کرتی ہے اور اس کی ضرورت کو سمجھتی ہے۔
میں اس یک جہتی کے فریب کو صرف "Farce on Washington" کے عنوان سے پکارتا ہوں۔ احتجاجی مارچ کا خیال اصل میں لگ بھگ 20 سال سے واشنگٹن کے نیگروز میں گردش کر رہا تھا اور پھر اچانک اس خیال نے تحریک پکڑ لی۔ تمام جنوبی نیگروز چھوٹے قصباتی نیگروز، شمال کے کچی بستیوں کے نیگروز حتیٰ کہ سابق ہزاروں انکل ٹام نیگروز مارچ کی باتیں کرنے لگے۔ جولوئیس کے وقت سے لے کر آج تک اتنی بڑی سطح پر نیگروز نے اتحاد کا مظاہرہ نہیں کیا نیگروز کے گروہ ہر صورت میں واشنگٹن پہنچنے کا تہیہ کیے ہوئے تھے وہ پرانی کاروں میں بسوں کے ذریعے ہچ ہائی کنگ کر کے اور اگر مجبوری ہو تو پیدل ہی واشنگٹن پہنچ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ گلیوں میں، سڑکوں پر، ائر پورٹ رن ویز، اور سرکاری باغیچوں میں دھرنا دینگے اور کانگرس اور وائٹ ہاؤس سے مطالبہ کریں گے کہ ٹھوس قسم کے سول رائٹس بنائے جائیں۔ یہ ایک قومی تلخی کا اظہار تھا۔ یہ ایک غیر منظم، بے قیادت اور جنگ جویانہ صفات کا حامل مارچ تھا اور اس کی غالب اکثریت ان نوجوان نیگروز پر مشتمل تھی جو سفید فام کی ایڑی تلے سسک سسک کر تنگ آ چکے تھے اور اب ہر قسم کے نتائج سے بے پرواہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اور ظاہر ہے سفید فام کے لیے پریشان ہونے کی معقول وجہ تھی کیونکہ کوئی بھی جذباتی چنگاری کالوں کو جگا سکتی تھی۔ حکومت کو اچھی طرح علم تھا کہ ہزاروں سیاہ فام ناراض اور مشتعل لوگ واشنگٹن کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے سماجی حقوق کے نیگروز ”راہ نماؤں“ کو فوراً مدعو کیا اور انہیں یہ مارچ روکنے کے لیے کہا مگر انہوں نے بے حد خلوص کے ساتھ انہیں بتایا کہ اس کا آغاز انہوں نے نہیں کیا ہے اور نہ اس پر ان کا کوئی اختیار ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ سیاہ بارود کا ایک ڈھیر تھا۔ یہ سارا کچھ کسی فلم کی طرح تھا۔ سماجی حقوق کی 6 تنظیموں کے نام نہاد نیگرو راہنما نیو یارک میں سفید فاموں کے زعماء سے ملے۔ جنہیں8 لاکھ ڈالر دئیے گئے جو فوراً ہی آپس میں بانٹ لیے گئے گویا سفید فام کی دولت کے ذریعے سیاہ فاموں کا اتحاد حاصل کیا گیا اور اس دولت کے ساتھ ایک ”نصیحت“ وابستہ تھی۔ ناصرف عطیہ کی رقم ادا کی گئی بلکہ مارچ کے بعد اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو مزید رقم کا وعدہ بھی کیا گیا۔ یہ واشنگٹن کے حقیقی مارچ کی شکل تبدیل کرنے کی کوشش تھی، عالمی پیمانے پر مارچ کی سربراہی کرنے والے چھ بڑوں کو خوب شہرت دی گئی جو حقیقی ناراض نیگروز کے لیے ایک خبر کی حیثیت رکھتی تھی۔ انہوں نے فرض کر لیا کہ یہ مشہور راہنما بھی ان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں اس کے بعد چار سفید فام عوامی شخصیات کو شامل کیا گیا جن میں ایک کیتھولک تھا، ایک یہودی، ایک پروٹسٹنٹ اور ایک لیبر جو باس تھا۔ اس کے بعد مشہور کیا گیا کہ یہ ”دس بڑے“ جلوس کی نگرانی کریں گے اور اس کے رجحان کا تعین بھی کریں گے۔ بہت جلد یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور نام نہاد آزاد خیال کیتھولکس، یہودی، پروٹسٹنٹس اور لیبرز ”جمہوریت“ کے لیے مارچ میں شامل ہونے لگے۔ جو لوگ اس سے قبل جلوس کے مخالف تھے وہ بھی اس کے حق میں بولنے لگے اور یہ جلوس ایک سفید فام جلوس کی شکل اختیار کر گیا، تاکہ ان غریب، مظلوم، بھوکے، بیکار نیگروز کو کچلا جا سکے۔ ”یک جہتی“ پرست نیگروز قرار داد پر دستخط کرنے کے لیے ٹوٹے پڑتے تھے۔ یہ مشتعل جلوس ایک فیشن کی چیز بن گیا۔ گویا کنٹکی ڈربی شروع ہو گئی ہو۔ سٹیٹس کے جویاؤں کے لیے یہ سٹیٹس کی علامت بن گیا اور ہر شخص دوسرے سے پوچھتا ”تم گئے تھے؟“ جلوس کا تاثر، سیر اور پکنک کا سا ہو کر رہ گیا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔