زرعی صنعت اور زمینی حقائق

Jun 26, 2024

سید منیر حسین گیلانی

 پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومتوں کی طرف سے زراعت کو صنعتی درجہ دینے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عملی طور پر میدان میں مشینری آ سکی اور نہ ہی کاشتکاروں کو رہنمائی دی جا سکی ہے۔ اس حوالے سے میں چند باتیں وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نوازکے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں صنعتی پلیٹ فارم کو بڑے، درمیانے اورچھوٹے درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ زراعت کو بھی اسی طرح سے تقسیم کیا جائے۔ یعنی بڑے جاگیردار، صاحب ثروت اوراچھے وسائل رکھنے والے کاشتکاروں کواے کیٹگری میں رکھ کر ان سے بات چیت کی جائے اور ان سے کاشتکاری کی ترقی میں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ زراعت کی ترقی کے لیے جدید زرعی آلات،کھاد، بیج،ادویات کے بارے میں انہیں رہنمائی دی جائے۔اسی طرح چھوٹے اوردرمیانے درجے کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بارانی علاقوں میں سولر سسٹم کو متعارف کروا کر واپڈا کی بجلی پرانحصار ختم کیا جائے۔نئے زرعی آلات اور پرانوں کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے کسانوں کی رہنمائی کے لیے ادارے بنائے جائیں اوران سے کام بھی لیا جائے۔ ان کو ٹریکٹر سے لے کر کاشتکاری میں استعمال ہونے والی جتنی بھی مشینری ہے، بلا سود اور سبسڈی پر مہیا کی جائیں۔ اس کے بعد جیسے کہ کاٹیج انڈسٹری ہے، اسی طرح چھوٹے کاشتکار، جو کہ چند ایکڑوں کے مالک ہوتے ہیں ان کے بھی زون بنائے جائیں۔ انہی کے علاقوں میں زرعی آلات کے استعمال اور مکینکل مسائل کے حل کے لیے مراکز تشکیل دئیے جائیں اوریوں ہمارے دیہاتوں میں کام کرنے والے زرعی کارکنوں اور جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کر نے والوں کو دیہاتوں میں ہی روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے۔

ایک اور بڑی ذمہ داری کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے صوبوں میں زرعی یونیورسٹیاں تو قائم ہیں، کامیاب طلبہ و طالبات کو نوکریاں بھی مل جاتی ہیں، مگر انہیں کسی خاص منصوبے پر کام کرنے کے لیے نہیں کہا جاتا کہ وہ نئی ایجادات کرکے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نئے بیج، نئی مشینری،کم خرچ کھادیں متعارف کروائیں اور زرعی مسائل کا حل تلاش کریں۔

اس حوالے سے مجھے زرعی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ سے گزارش کرنی ہے کہ صوبائی حکومتوں سے منصوبہ بندی کر کے اپنے کاشتکار بھائیوں کو حوصلہ دیں، زراعت کو جدید تقاضوں کے مطابق چلانے کی ذمہ داری لیں اور کسانوں کو باور کروائیں کہ کس علاقے میں چاول،کپاس، گنے کی جنس بہتر پیدا ہو سکتی ہے۔ اس علاقے کی نشاندہی کریں کہ کس جنس کے لئے ماحول کہاں بہترہے اور اسی طرح جن علاقوں میں کپاس کاشت کی جاتی ہے۔ان میں بھی سرکاری سطح پر بیج، ادویات اور دیگر زرعی ضروریات کے بہتر نتائج کے لیے تحقیقاتی مراکز کی سرپرستی کرنی چاہیے۔

حیرت ہے کہ پاکستان کے پڑوسی ممالک میں زراعت نے خوب ترقی کر لی ہے اوروہ خطے میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں۔ ہمارا بارڈر چین کے ساتھ ملتا ہے۔ ہمارے تاجر چین میں جا کر اپنی مرضی کے مطابق سیمپل دکھا کر مختلف قسم کے آلات اور مشینری تیار کرالیتے ہیں۔جو پاکستان میں فوری پہنچ بھی جاتی ہے مگر حکومت پنجاب نے ابھی تک چین کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا تاکہ چین سے چھوٹی بڑی زرعی مشینری درآمد کی جا سکے۔ یہ مشینری ہم خود کیوں تیار نہیں کرسکتے، تاکہ ملکی زرمبادلہ بچ سکے۔اسی طرح ہمارے سرحدی پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی زراعت کے شعبہ کے اندر اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ اپنے زرعی آلات اور تعلیم کے ذریعے افغانستان میں بھی زرعی ترقی کے حوالے سے کام کر رہاہے۔

پاکستان کو بھی تجارتی تعلقات بہتر بناتے ہوئے ایران کی زرعی ترقی سے استفادہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ ہم بلوچستان میں بجلی ایران سے لے رہے ہیں۔اسی طرح بہت ساری ایرانی اشیاء پاکستانی بازاروں میں نظر آتی ہیں توہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ زرعی ترقی میں بھی ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔مسئلہ کشمیر اور جنت نظیر وادی میں بھارتی فوج کے ظالمانہ اقدامات اور اس خطے کا جغرافیہ بدلنے کے غیر آئینی اقدامات کی وجہ سے بلاشبہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مجبوریاں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ طبقات کو میری یہ بات اچھی نہ لگے۔وہ یہ ہے کہ بھارت بھی ہمارا پڑوسی ملک ہے،اگرچہ اچھا پڑوسی نہیں، مگر بھارت کی زرعی ترقی سے بھی ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔جس حد تک ممکن ہو بھارت سے خوردنی اشیاء، سبزیاں، پھل،لائیو سٹاک سمگل ہوکر تو آتے ہی ہیں،ان کے لئے قانونی راستوں کو کھولنے کے اقدامات کا جائز لینا چاہیے اوران سے بھی استفادہ کرنا چاہئے۔

میں سمجھتا ہوں کہ محترمہ مریم نواز بہت متحرک وزیراعلیٰ ہیں اور عوامی مفاد میں جو با ت انہیں سمجھ آ جاتی ہے، اس پر فوری عمل کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ انہیں ان منصوبوں کے فالو اپ اوربیوروکریسی کی نگرانی کے لیے اپنے ایماندار باوفا ساتھیوں کو ذمہ داری سونپ دینی چاہیے اور ان کی رپورٹ کاہر 15 دن بعد اجلاس میں جائزہ لیا جائے کہ کس حد تک کام ہوا ہے اور کیا کرنا باقی ہے؟ مجھے چند دن پہلے سندھ میں چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی تقریرنے متوجہ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم سندھ میں واپڈا کے ظالمانہ نظام سے نجات کے لیے کاشتکاروں کو ٹیوب ویلوں پر استعمال کے لئے سولر سسٹم فری دیں گے۔ لیکن یہ باتیں مہینوں سے سنی جا رہی ہیں، عملی اقدام کہیں نظر نہیں آرہے۔ اسی طرح صدر پاکستان محترم آصف علی زرداری جس منصب پر بیٹھے ہوئے انہیں ایران گیس پائپ لائن کی بحالی کے اقدامات کی ابتدا کرنی چاہیے۔ اس سے توانائی بحران کے شکار عوام اور صنعت کار خوش ہوں گے۔تاکہ آئندہ آنے والے وقت میں بہتر نتائج دے سکیں گے، ورنہ گیس کی قلت سے پاکستان کا ہر شہری جو اس پر انحصار کرتا ہے،وہ پریشانی کے عالم میں ہے کہ جب بھی سردی کا موسم آتا ہے تو گیس لوڈ شیڈنگ سے بہت زیادہ مسائل پیدا ہوتے ہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ بھی پھر جنگلات پر انحصار کریں اور ہم جنگلات سے بھی محروم ہونا شروع ہو جائیں۔موسمی تبدیلی نے پہلے ہی دنیا کے نقشے کو بدلنا شروع کردیا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم اپنے گھر کو ٹھیک کرلیں ور نہ بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ 

مزیدخبریں