'آپریشن عزم استحکام'

 'آپریشن عزم استحکام'
 'آپریشن عزم استحکام'

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی حکومت میں پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔اگر حکومت کے ابتدائی سو دنوں کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس بار حکومت سیاسی مخالفین کے خلاف بے بنیاد مقدمات بنانے کی بجائے ملکی ترقی کے لئے مصروف عمل ہے،کچھ دن پہلے ٹی وی پر سابق حکومت کے ایک وزیر۔ کا انٹرویو دیکھا جس میں جناب فرمارہے تھے کہ جب ان کے دور میں مسلم لیگ کے راہنما احسن اقبال پر نیب کیس بنایا گیا تو انہوں نے میٹنگ میں یہ نقطہ اٹھایا تھا کہ احسن اقبال پر کیس بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے،کوئی رکن اگر اپنے علاقے کے لیے ترقیاتی کام یا یونیورسٹی کے قیام کے لیے منصوبہ شروع کرواتا ہے اور وہ منصوبہ بروقت مکمل ہو جاتا ہے علاقے کے لوگوں کو اس منصوبے سے بہت فائدہ ہوتا ہے ایسے کام کرنے والوں کے خلاف نیب کیس بنانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔کاش سابق حکومتی وزیر کو یہ بات اس وقت کہنے کی توفیق ہوتی جب احسن اقبال پر کیس بنایا گیا۔لیکن اس وقت کے وزیر اعظم صاحب ہر سیاسی مخالف کو جیلوں میں بندکرنے کے خواہش مند تھے۔ ان کے بس میں ہوتا تو واقعی ہر مخالف جیل میں بند ہوتا اور جناب کی خواہش کی مطابق مخالفین کو جیل میں قید بامشقت کی سزا دی جاتی لیکن اب وقت بدل چکا ہے اب ملک میں حکومت شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے۔میاں نواز شریف ہر دوسرے روز شہباز شریف سے مختلف ترقیاتی کاموں کی تفصیل معلوم کرتے ہیں۔اس لیے موجودہ حکومت کے پاس مخالفین کے لیے وقت ہی نہیں بچتا۔وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے اپنی کارکردگی سے سب کو حیرا ن کیا ہوا ہے۔صنف آہن کہلائی جانے والی مریم سیاسی نعروں کی بجائے میدان عمل میں نظر آرہی ہیں۔فیلڈ ہسپتالوں کا قیام ہو،صاف پنجاب مہم ہو،تعلیمی معاملات ہوں،وزیر اعلی پنجا ب اپنی محنتی ٹیم کے ساتھ بہتر سے بہترین کام کررہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف محکموں کے ملازمین کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی وقت نکال رہی ہیں۔سندھ اور بلوچستان میں خاموشی نظر آتی ہے۔یہ درست ہے کہ آج مرکز میں صدر،چیئرمین سینٹ،دو صوبوں کی گورنر شپ پیپلز پارٹی کے پاس ہے لیکن بھٹو کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والے حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود حکومت کے لیے مشکلات  پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔۔سندھ سے  ایک عرصہ ہوا ایم کیو ایم کچھ مخصوص وزارتیں اور گورنر شپ حاصل کررہی ہے۔ایسے ہی پیپلز پارٹی والے مرکز اور دوسرے صوبوں میں آئینی  عہدے حاصل کررہے ہیں۔کے پی کے کی بات کریں تو وہاں وزیر اعلی علی امین گنڈا پور صاحب کسی جیالے کی طرح نعرے لگاتے ہیں،مرکزی حکومت کو تڑیاں لگاتے ہیں،گرڈ سٹیشن جا کے بجلی کا بٹن آن کرتے ہیں،صوبے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں لیکن بجلی چوری کرنے اور بل  ادا نہ کرنے والوں کے خلاف کوئی موثر حکمت عملی طے کرتے نظر نہیں آرہے۔یہی وجہ ہے کہ کے پی کے میں سیکیورٹی حالات دن بدن خراب ہورہے ہیں،سیکیورٹی فورسسز کے افسر۔جوان اور عام شہری شہید ہورہے ہیں۔حالات کی خرابی کو دیکھتے ہوئے اور دوست ملک کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے ملک میں 'آپریشن عزم استحکام' کے نام سے نئے فوجی آپریشن کی منظوری دے دی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف سمیت حزبِ اختلاف کی بعض جماعتیں اس مجوزہ آپریشن کی مخالفت کر رہی ہیں۔لیکن حکومتی ترجمانوں کے مطابق آپریشن کا مقصد گزشتہ تین برسوں کے دوران قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے اثر کو ختم کرنا ہے۔کچھ دن پہلے وزیرِ اعظم پاکستان کی زیرِ صدارت نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس کے دوران انسدادِ دہشت گردی مہم تیز کرنے کے لیے 'عزم استحکام' آپریشن کو ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی اور دیگر اعلٰی حکام بھی موجود تھے۔آپریشن کی منظوری دینے والی اپیکس کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ کسی کو بھی ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان کو افغانستان سے متصل مغربی سرحد پر آئے روز مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کی جانب سے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو سیکیورٹی کی صورتِ حال 2009-2008 کے مقابلے میں کافی تسلی بخش ہے تاہم آپریشن کا فیصلہ پاکستان میں چینی شہریوں پر حملوں کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن جو بھی ہے دہشت گرد کسی رعایت کے حقدار نہیں۔ وسطی علاقوں بشمول خیبر، کرم اور اورکزئی میں صورتِ حال کنٹرول میں نظر آتے ہیں لیکن جنوبی اور شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ باجوڑ اور مہمند میں بھتہ خوری عروج پر ہے۔ گزشتہ ہفتے افغانستان کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران اقوامِ متحدہ کے لیے پاکستان کے مستقبل مندوب منیر اکرم نے شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کو پاکستان کی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ شدت پسند گروہ نے پاکستان کے اندر 98 کارروائیوں کی ذمے داری قبول کی جس میں زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ایسے حالات میں آپریشن عزم استحکام ہی بنتا ہے تاکہ دہشت گردوں کو پنپنے سے روکا جائے۔

مزید :

رائے -کالم -