مصباح الحق نے ٹھیک کہا؟
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ون ڈے کے سابق کپتان مصباح الحق وطن آتے ہی پھٹ پڑے اور انہوں نے ایک روزہ میچوں سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کو حتمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے رہیں گے وہ ٹیسٹ ٹیم کے بھی کپتان ہیں تاہم جب ٹیسٹ سیریز کا وقت آ ئے گا تو بورڈ اور سلیکشن کمیٹی کی طرف سے روایت کے مطاق دوبارہ اعلان ہو گا اور یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے کو کپتان بنا دیا جائے۔
اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھائی جائے، ہمارے نوید اقبال چودھری نے فیس بُک پر مصباح الحق کے بیان اور تنقید کرنے والے ماہرین اور اینکرز پر تنقید کی مکمل حمایت کی اور ان کو بڑی پذیرائی ملی ہے کہ دوستوں کی بھاری ترین اکثریت نے ان کی حمایت کی۔
مصباح الحق نے بورڈ کے چیئرمین سے ملاقات کے بعد جو گفتگو کی، ہمارے نزدیک وہ بہت اہم ہے اور جتنی تیزی سے ان کے جواب میں کارروائی شروع کی گئی اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتاہے کہ تکلیف تو پہنچی ہے۔ ویسے مصباح نے دو اہم باتیں کیں۔ایک تو انہوں نے فیلڈ پر کھلاڑیوں کی تنک مزاجی اور رویے کی بات کی اور تنقید کرنے والے ماہرین اور اینکرز پر تنقید کی مکمل حمایت کی اور دوسرے سکندر بخت کو براہ راست مخاطب کر کے کہا ’’اب مٹھائی بانٹو، مَیں ریٹائر ہو گیا ہوں‘‘ سکندر بخت نے جواباً یہ کہہ کر بات بنانے کی کوشش کی کہ وہ مصباح الحق کی ذات کے خلاف نہیں، ان کی کپتانی پر بات کرتے رہے ہیں، جو شائقین اس میڈیا پر سکندر بخت کی بات سنتے رہے ہیں وہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ جو اب کہہ رہے ہیں ایسی بات نہیں تھی کہ وہ پرسنل ہو جاتے تھے اور اس کی وجہ بھی سامنے تھی کہ وہ سرفراز، سرفراز کی گردان کرتے رہے ہیں اور پاکستان میں بیٹھ کر آسٹریلیا کا حال بیان کرتے چلے گئے، ویسے کچھ پرانے شائقین کرکٹر خود سکندر بخت کے اپنے کیریئر کے بارے میں بھی سوال اٹھاتے اور پوچھتے ہیں کہ انہوں نے جو تیر مارے تھے وہ بھی تو بتا دیں۔
بہرحال مصباح الحق کا ایک روزہ میچوں والا کیریئر اختتام کو پہنچا، جیت جاتے تو بات دوسری تھی، اب کوارٹر فائنل میں ہار کر آئے ہیں اس لئے عوامی جذبات تو مجروح ہوئے ہیں اس لئے تنقید تو ہو گی اور یہ ان کو برداشت کرنا ہو گی کہ وہ کافی مضبوط اعصاب کے ہیں۔ ورنہ صہیب مقصود کی یہ مجال تھی کہ وہ میدان میں کپتان کی طرف سے فیلڈنگ کی ہدایت سے انکار کر دیتا، مصباح الحق نے ’’سِلی‘‘ پر فیلڈنگ کے لئے کہا تو اس نے انکار کر دیا اور مصباح الحق کو خود وہاں کھڑے ہونا پڑا، کیا کسی نے اس کا نوٹس لیا اور پھر اس کھلاڑی کو تو مسلسل موقع دیا گیا اس نے کون سے پہاڑ سر کر لئے۔ اسی طرح سرفراز کا مسئلہ ہے اس کی ایک اننگ اچھی ہو گئی تو اُسے کپتان بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔
قارئین کرام! ہم یہ بات ایک سے زیادہ بار کہہ چکے ہیں کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بننے دیں کہ اس میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ وقت پر جو ٹیم بھی اچھا کھیلے جیت اس کا مقدر بنتی ہے اسی لئے تو کھیل مکمل ہونے کے بعد دونوں ٹیموں کے کھلاڑی ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے اور خوشگوار الفاظ کا تبادلہ کرتے ہیں۔
اب ٹیم شکست کھا کر آئی ہے تو اسے شدید نوعیت کی تنقید کا سامنا ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے، لیکن ذرا غور فرمائیں تو یہ بھی اندازہ ہو گا کہ ٹیم میں مکمل اتفاق نہیں تھا اور ماحول سازگار نہ ہوا جس کی وجہ سے کھلاڑی دلجمعی سے نہیں کھیلے۔ اصل میں تو اس سازش کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے،جو اندر ہی اندر ہو رہی تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے اور بہت ہی افسوسناک اور دُکھ والی ہے کہ ہر شعبہ زندگی کی طرح کرکٹ میں بھی دھڑے بندیاں ہیں، جو محض کھیل کی بنیاد پر نہیں، اس کی وجوہات مقامی غیر مقامی اور لسانی بھی ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ معین خان کو امرت دھارا بنایا گیا۔ اس مقصد کے لئے بڑے سنجیدہ اور سینئر حضرات کو نظر انداز کیا گیا حوالے کے لئے ظہیر عباس کا نام کافی ہو گا۔ معین خان نے دعوے کئے تھے۔ نجم سیٹھی بھی (جن کو بیٹ پکڑنا تو دور کی بات یہ نہیں علم کہ کس بیٹ سے کہاں کھیلا جاتا ہے) ذمہ دار ہیں۔ معین خان کے سب سے بڑی حمایتی وہی ہیں اور انہوں نے ہی یہ رتبہ بھی دیا تھا، چنانچہ ورلڈکپ میں ٹیم معین خان کی تھی دوسروں کو الزام نہ دیں۔ معین خان کا محاسبہ کریں جو ’’کان‘‘ دبا کر بیٹھ گئے ہیں۔
سینئر ورلڈکپ کے علاوہ دواہم ترین ٹورنامنٹ انڈر19 اور انڈر21کے ورلڈکپ بھی ہوئے اور ہوتے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں نے بہت عمدہ پرفارمنس دی تھی کیا وہ درجہ میں ترقی کے حق دار نہیں؟ ان کو کیوں ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا؟ شعیب ملک اور کامران اکمل کو کس نے مکمل طور پر نظر انداز کیا؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو پوچھے بھی گئے،جواب کی تلاش رہے گی۔
ہم پھر کہتے ہیں کہ قوم کو بہت مایوسی ہوئی ہے تو اسے دور کرنے کا اہتمام کریں ہر نوع اور ہر قسم کی سیاست سے بالاتر ہو کر ٹیم نہیں ٹیمیں بنائیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ کو زیادہ رواج دیں، محکمہ جاتی ٹورنامنٹ الگ کرائیں، ریجنل اور صوبائی سطح پر مسلسل ٹورنامنٹوں کا اہتمام کریں۔ یہ ٹیم بن سکتی ہے۔ عمران خان کی بات پر غور کریں کہ محمد عرفان کو جب موقع دیا گیا تو اس کی عمر کیا تھی؟ پہلے کیوں نہیں؟ یہاں کھلاڑی ضائع کرنے کا رواج کیوں ہے؟
جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو کمرشل ازم کی وجہ سے حقائق سے بالا ہو کر بہت زیادہ اڑان بھر دی گئی اب ہوا نکلی ہے تو دم بخود ہیں۔