حرام خوراک سے بچانے والی اتھارٹی!
پنجاب حلال فوڈ اتھارٹی کے چیئرمین جسٹس(ر) خلیل الرحمن نے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ صوبے میں عوام کو حرام اشیاء کھلانے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ایک مسودہ قانون بھی تیار کیا جا رہا ہے جو اسمبلی سے منظوری کے بعد نافذ کر دیا جائے گا۔ اس کے تحت حرام اشیاء کی ترسیل کے ذمہ داروں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔صوبائی حکومت کی طرف سے یہ اتھارٹی ان خبروں کے بعد بنائی گئی جن کے مطابق نہ صرف مردار جانوروں کا گوشت کھلایا جاتا ہے بلکہ گدھوں کا گوشت تک فروخت کیا گیا اور لوگ پکڑے گئے ہیں۔چیئرمین اتھارٹی کے مطابق صوبے میں شرعی طریقے سے ذبیحہ کے اصول اور قواعد مرتب کر کے مذبحوں کو پہنچا دیئے گئے ہیں اور قانون میں یہ بھی گنجائش رکھی جائے گی کہ نجی طور پر ذبیحہ کی اجازت بھی دی جائے اس کے لئے مذبح کی تمام ضروریات پورا کرنا لازمی ہو گا اور قانون کے تحت باقاعدہ اجازت لینا ہو گی اور اتھارٹی یہ اہتمام کرے گی کہ صفائی سے لے کر ذبیحہ تک کی تمام قانونی شرائط لازماً پوری کی جائیں۔
حکومت کی طرف سے یہ ایک اچھا قدم اٹھایا گیا۔ حال ہی میں مسلسل یہ خبریں مل رہی تھیں کہ گدھے کا گوشت کھلایا جا رہا ہے اور پھر یہ خبریں بھی ملیں کہ مردہ مرغیوں کا گوشت بھی کھلا دیا جاتا ہے۔ چیئرمین جسٹس(ر) خلیل الرحمن نے انتہائی اچھے اور اہم اقدامات کی نوید سنائی ہے تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اتھارٹی ’’حلال‘‘ تک محدود رہے گی اور ذبیحہ کا شرعی انتظام کرنے کے ساتھ حرام والی اشیاء بہم پہنچانے والوں کو روکے گی۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ ایک نیک نام سابق جج کی نگرانی میں یہ نیک کام ہو گا۔ اگر حلال کے لئے اتھارٹی بنا ہی دی ہے تو معیاری خوراک کی پڑتال کا اختیار بھی اسی کو دے دیا جائے۔ یوں سارا کام ایک ہی جگہ ہو اور شہری بیماریوں سے محفوظ رہیں اور ان کو حلال اشیاء ہی دستیاب ہوں۔