متحدہ کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کی مخالفت

متحدہ کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کی مخالفت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے 2013 ء کے عام انتخابات کی تحقیقات کے لئے بنائے جانے والے جوڈیشل کمیشن کی مخالفت کی ہے۔ منگل کو وزیراعظم محمد نواز شریف نے وزیراعظم ہاوس میں پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بلایا جس کا مقصد انہیں حکومت کے ساتھ تحریک انصاف کے معاہدے پر اعتماد میں لینا تھا۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی، پی کے میپ، قومی وطن پارٹی اور فنکشنل لیگ کے رہنماؤں نے شرکت کی۔اس موقع پر اسحاق ڈار نے تحریک انصاف کے ساتھ معاہدے کی تفصیلات پیش کیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے مل کر کام کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنا چاہتے ہیں۔حکومتی جماعت کی طرف سے پہلے ہی واضح کیا گیا تھا کہ آرڈیننس کی منظوری تمام جماعتوں سے مشاورت اور ان کی رضامندی کے بعد ہی عمل میں آئے گی۔اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے سوا باقی تمام سیاسی جماعتوں نے جوڈیشل کمیشن کی حمایت کی اور اسے خوش آئند قرار دیا۔ پیپلز پارٹی تو پہلے ہی چاہتی تھی ملک میں جمہوریت رواں دواں رہے اسی لئے وہ دونوں جماعتوں کے درمیان مصالحت کی راہ ہموار کرتی رہی، وہ سیاسی جرگے میں بھی متحرک تھی، لیکن متحدہ کے رہنما فاروق ستار نے تحریک انصاف کے ساتھ حکومت کے جوڈیشل کمیشن کے معاہدے کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 225 اور آرٹیکل 189 کے خلاف ہے۔انہوں نے تحریک انصاف کو بھی خبردار کیا کہ کہیں ان کے ساتھ کوئی کھیل تو نہیں کھیلا جا رہا۔ان کی تنبیہ اپنی جگہ لیکن کسی بھی جماعت کے ساتھ کھیل کھیلنا اتنا آسان نہیں ہے، ساری جماعتیں اس جوڈیشل کمیشن پر متفق ہیں تووہ اس بات پربھی غور کریں گی اور آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈیں گی۔ہو سکتا ہے کہ متحدہ کو یہ لگتا ہو چونکہ اس کمیشن کا دائرہ کار صرف چار حلقوں تک نہیں، بلکہ پورے پاکستان میں پھیلا ہو گااور اگر کراچی کے معاملات زیر بحث آئے تو کہیں وہ اس کی لپیٹ میں نہ آ جائے ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ کمیشن حلقوں کی چھان بین کا کام نہیں کرے گا، بلکہ مجموعی طور پر ’ منظم دھاندلی‘ کے الزامات کی تحقیقات کرے گا۔ منظم دھاندلی سے مراد ایسی صورت حال پیدا کرنا ہے، جس میں ایک جماعت جیت جائے اور دوسری ہار جائے، اس لئے پورے انتخابات کی صورت حال کاتفصیلی جائزہ لیا جائے گا ۔


مسئلہ یہ ہے کہ عام انتخابات 2013ء کو مئی میں دو سال مکمل ہو جائیں گے، لیکن ان پر سوالیہ نشان ابھی بھی برقرار ہیں۔ہم افغانستان سے ہی کوئی سبق سیکھ لیتے،ہمارے ہاں تو معاملات انتہائی سست روی سے آگے بڑھ رہے ہیں، مگریہ بھی مقام شکر ہے کہ ایک جگہ رک نہیں گئے۔رواں ماہ کی 20تاریخ کو اچانک دونوں جماعتوں نے جوڈ یشل کمیشن پر متفق ہونے کا اعلان کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کردیا۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ بیٹھ کر انتہائی مسرت سے مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کیا بس اس فتح کا راز انہوں نے میڈیا سے دوری کو قرار دیا،گویا میڈیا اس سارے معاملے میں ’بی جمالو‘ کا کردارنبھا تا رہا ہو۔


جوڈیشل کمیشن کے قیام پر تو سب متفق تھے، مسئلہ تو اس کی تشکیل کا تھا، وزیر اعظم جوڈیشل کمیشن بنانا چاہتے تھے اور تحریک انصاف کی بھی یہی خواہش تھی، لیکن تحریک انصاف کا خیال تھا کہ وزیر اعظم کی موجودگی میں جوڈیشل کمیشن آزادی سے کام نہیں کر پائے گا، جبکہ وزیراعظم کا موقف تھا ان کے پاس قوم کا مینڈیٹ ہے وہ مستعفی کیوں ہوں؟ جب وزیراعظم کے استعفے کی بات نہ بنی تو تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن میں خفیہ اداروں کے ارکان کو شامل کرنے کاُ انوکھا‘ مطالبہ کر ڈالا، جس کی آئین میں کوئی گنجائش موجود نہیں ، اب بالآخر وہ اسی بات پر مان گئے ہیں کہ کمیشن چاہے تو خفیہ اداروں کی مدد لے سکتا ہے۔


انتخابا ت کی شفافیت پر توتمام سیاسی جماعتوں کوہی تحفظات تھے، اسی لئے انہوں نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کو خوش آئند عمل قرار دیا ہے اور مبارکباد بھی دی ہے لیکن متحدہ کو جوڈیشل کمیشن کے قیام کا فیصلہ شاید کچھ پسند نہیں آیا۔ خیر وہ اختلاف رائے کا حق محفوظ رکھتی ہے،لیکن متحدہ کو خاطر جمع رکھنی چاہئے،غور و فکر کر لیناچاہئے،یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ملک میں بڑے بڑے قانونی دماغ موجود ہیں، اسے ان پر اعتماد کرنا چاہئے ،وہ اچھی طرح سوچ بچار کر کے ہی آرڈیننس جاری کریں گے۔ آرڈیننس بھی ایسا جس کو منظور کرانے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے کا ’انتظار ‘ ہو رہا ہے، کیونکہ اگر اسمبلی کا اجلاس جاری ہو تو بل پیش ہوتا ہے اگر اجلاس نہ ہو رہا ہو تو آرڈیننس جاری ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف خاموشی سے اجلاس کے ختم ہونے کی منتظر ہیں، اس سے اتفاق کی برکتیں تو صاف ظاہر ہو رہی ہیں۔بہر حال اب جمعہ کے مبارک دن اس آرڈیننس کی منظوری متوقع ہے، جس کے بعدہی باقی معاملات آگے بڑھیں گے۔اس سے اچھی بات اور کیا ہو گی کہ الزام لگانے والی جماعت کو قرار بھی آ جائے گا اور سچائی بھی سب کے سامنے آ جائے گی،پھر قصوروار سزا کا حق دار ہو گا اور جیتنے والا نئے انتخابات میں اپنی کامیابی کے جتن کرے گا،بے یقینی کی اس فضا کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
بہرحال پھر بھی اگر متحدہ اپنے دل کو اس کمیشن کی حمایت پر راضی نہیں کر سکتی تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، جمہوریت میں اکثریت کی رائے معنی رکھتی ہے، سو فیصد حمایت ذرا مشکل سے ہی ہاتھ آتی ہے۔اختلاف رائے نہ ہو تو بھی جمہوریت کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔امید افزا بات یہ ہے کہ اہلِ سیاست احتجاج کی بجائے مفاہمت کا ٹوٹکہ آزمانے لگے ہیں جس سے مستقبل میں بہتری کی امیدباندھی جا سکتی ہے۔

مزید :

اداریہ -