میرا یومِ پاکستان
اردو کے نام ور ادیب اے حمید کو برصغیر کے تہذیبی و ثقافتی شہروں، بالخصوص لاہور کی گلیوں، کوچوں، سڑکوں اور بازاروں کے سحر نے جکڑے رکھا اور وہ اس کا اظہار ’’بارش‘‘۔۔۔’’سماوا‘‘ اور ’’خوشبو‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی تحریروں میں کرتے رہے۔ مجھے لاہور کی تہذیبی، ثقافتی اور ادبی زندگی نے مسحور کررکھا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب مَیں کسی نہایت عمدہ تقریب میں شریک نہیں ہوتا۔کبھی مشاعرے میں جانا پڑتا ہے، کبھی کسی ثقافتی محفل میں فن کی داد دینے کے لئے پہنچ جاتا ہوں۔ کبھی کسی فلاحی ادارے کا اجتماع مجھے اپنی طرف بلا لیتا ہے جس میں شہر کے دیالو جمع ہوتے ہیں، حتیٰ کہ کبھی کبھی کسی سیاسی تقریب میں بھی حاضری لگوانا پڑتی ہے، لیکن یہاں بھی مَیں اپنی ادبی شناخت کے ساتھ جاتا ہوں اور اس ادبی شناخت کے ساتھ واپس آتا ہوں۔ اس سال یوم پاکستان پہلی بار نہایت جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ہے۔ بہت عرصے کے بعد اسلام آباد میں فوجی پریڈ ہوئی۔ کئی سال کے تعطل کے بعد ہونے والی پریڈ نے اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دیں۔ صدر اور وزیراعظم دونوں موجود تھے۔ لاہور بھی 23مارچ کے موقع پر پیچھے نہیں رہا۔ لاہور کی کئی سڑکوں پر وطن سے محبت اور ارادوں کی تجدید کے عملی مظاہرے ہوئے، جنہیں چشم فلک نے بھی حیرت سے دیکھا اور لاہور کے شہریوں نے بھی۔۔۔ریڈیو پاکستان لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر ساجد درانی کی ذاتی دلچسپی سے یوم پاکستان کے سلسلے میں کئی نئے پروگرام ریکارڈ کئے گئے۔ مجھ سے انہوں نے خاص طور پر ایک قومی نغمہ لکھوایا، جس کے بول تھے: اک نغمے کی تان مَیں اور پاکستان جسم میں جیسے جان مَیں اور پاکستان یہ نغمہ انور رفیع نے گایا۔ بزرگ موسیقار جناب وجاہت عطرے نے اس کی دھن بنائی۔ یہ نغمہ ریڈیو پاکستان لاہور سے سارا دن بار بار نشر کیا جاتا رہا۔ پروڈیوسر شفیق مغل اور طیبہ انتخاب نے دن رات کی محنت سے یہ گیت ریکارڈ کرکے ثابت کر دکھایا کہ آج بھی اچھا کام کیا جا سکتا ہے۔طیبہ انتخاب ریڈیو پاکستان لاہور میں ایک عمدہ اضافہ ہیں۔آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے میوزک میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور خاصا عملی تجربہ رکھتی ہیں۔ پروڈیوسر عفت علوی نے ایک خصوصی مشاعرہ ریکارڈ کیا تھا، جس میں لاہور کے نامی گرامی شاعروں نے قومی شاعری سنائی۔ ایک مَیں تھا جو گم نام تھا، لیکن اس کے باوجود مشاعرے میں شریک تھا۔آپ اسے دوست نوازی کہہ لیجئے یا شاعر نوازی، بات ایک ہی ہے۔ اُدھر الحمرا ہال نمبر تین میں میرے دوست اور پختہ فنکار جناب حسیب پاشا نے بچوں کے لئے یوم پاکستان کے سلسلے میں خصوصی اسٹیج ڈرامے ’’جن اور جادوگر‘‘ کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں زکوٹا جن کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھی فنکار جمال اور کاظم نمایاں تھے۔ اس خصوصی شو کے لئے مجھے انہوں نے بطور خاص دعوت دی تھی، چنانچہ مَیں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی بیٹی ارفع ناصر کی سالگرہ کا کیک تیار کرایا۔ بیس پونڈ کا یہ کیک میری بیٹی نے ڈرامے کی ساری ٹیم کے ساتھ مل کر کاٹا۔ میرے دوست حسیب پاشا المشہور ہامون جادوگر نے ڈرامے کے دوران میں ایک جادوگری یہ دکھائی کہ لوگوں کو ایک خالی فریم دکھایا اور کہا کہ وہ پلک جھپکنے کے عرصے میں اس میں آج کے مہمانِ خاص ناصر بشیر کی تصویر فٹ کر دیں گے۔ پھر انہوں نے ایسا کر بھی دکھایا۔ انہوں نے اس کے لئے کیا سائنس لڑائی؟ مجھے تو علم نہیں ہو سکا، لیکن وہ شخص ضرور جان گیا ہوگا، جس نے ڈرامے کے دوران میں بیک اسٹیج سے وہ فریم میری تصویر سمیت اُڑا لیا۔میری دعوت پر یہ ڈراما دیکھنے کے لئے بہت سی فیملیز آئی ہوئی تھیں۔ ڈراما دیکھنے کے بعد سب کی یہی رائے تھی کہ کم وسائل میں بھی نہایت عمدہ کھیل پیش کئے جا سکتے ہیں، جن میں تعلیم، تفریح اور سبق سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ کھیل الحمرا آرٹس کونسل کی پہچان بن چکا ہے۔ اگر میرے مہربان دوست اور الحمرا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیپٹن (ریٹائرڈ) عطا محمد خان ’’جن اور جادوگر‘‘ کی بے سروسامانی ختم کرنے کا کوئی طریقہ تلاش کرسکیں تو یہ لاہور کے بچوں پر احسانِ عظیم ہوگا جو ہر اتوار کو اپنے والدین اور دوستوں کے ساتھ یہ ڈراما دیکھنے پہنچ جاتے ہیں۔یہ مفت لیکن دلچسپ ڈراما آپ ہی آپ اپنے ناظرین کو اپنی طرف کھینچتا ہے لیکن الحمرا کے بعض اہل کار، اسے کارِ بے کار سمجھتے ہیں چنانچہ وہ بار بار اسے جلد از جلد وائنڈاپ کرنے کا کہتے ہیں اب کے تو عجیب واقعہ ہوا عین اس وقت جب دو مرکزی کردار ہیررانجھا کا گانا پیش کررہے تھے اور ناظرین اس میں کھوئے ہوئے تھے کہ کسی اہل کار نے مائیک بند کر دیا۔یہ بدتہذیبی جناب عطاء الحق قاسمی اور کیپٹن عطاء محمد خان کے زمانے میں زیب نہیں دیتی۔یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ اسی ہال میں اس ڈرامے کے بعد ایک اور تقریب منعقد ہونا تھی جو تقریباً رات ساڑھے سات بجے شروع ہوئی۔انہیں تقریب شروع کرنے کی کوئی جلدی نہ تھی۔یہ تقریب ’’جیو نواز ویلفیئر ایسوسی ایشن لاہور‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہو رہی تھی ۔اس کے لئے میاں فیصل وحید نے مجھے پہلے سے پابند کر رکھا تھا، چنانچہ یہاں بھی مَیں نے اپنی بھرپور حاضری لگوائی۔ مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر پرویز ملک یہاں صدرِ محفل اور جانِ محفل تھے۔ میزبان محفل ایم پی اے ماجد ظہور تھے جو علم دوستی اور ادب نوازی کا تشخص رکھتے ہیں۔ایک نوجوان گلوکار نے کرم حیدری کا لکھا ہوا اور استاد امانت علی خان کا گایا ہوا قومی نغمہ ’’اے وطن پیارے وطن‘‘ گا کر سب کے لہو کو گرما دیا۔ جب انہوں نے کہا: ’’مَیں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہء تن‘‘ تو تمام حاضرین جذباتی ہو گئے۔ میاں فیصل وحید کے ساتھ آغا ریحان بھی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ لیگی کارکنوں نے یہاں وطن سے محبت کا اظہار بھی کیا اور اپنی قیادت سے گلے شکوے بھی کئے۔ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ ان کے بعض قائدین اقتدار میں آنے کے بعد ان کا فون ہی نہیں سنتے۔ کمپیئر عزیز شیخ نے گواہی دی کہ اور کوئی فون اٹھائے یا نہ اٹھائے پرویز ملک ان کا فون بہرحال اٹھاتے ہیں اور بات کرتے ہیں۔ لیگی قیادت کو میرا مشورہ ہے کہ اگر ان کے کارکن ان سے فون پر بات کرکے خوش ہو جاتے ہیں تو وہ ان کا فون سن لیا کریں۔ اپنے مسائل کی تو وہ بات ہی نہیں کررہے۔۔۔ یومِ پاکستان کی اتنی مثبت مصروفیات نے مجھے اپنے ارادوں میں اور مضبوط کردیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مَیں جو کچھ حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہوں، وہ سب مجھے جلد ملنے والا ہے۔