عام معافی

عام معافی
 عام معافی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان اس وقت جن محاذوں پر سرگرم ہے ان میں دونوں ملک کے اندر واقع ہیں۔ دہشت گردی اور جرائم سے نمٹنے کے لئے فوج، رینجرز اور پولس کمر بستہ ہیں۔ وسائل اور قوت صرف کئے جارہے ہیں ،تاکہ ملک کے اندر امن و امان قائم ہو سکے۔ ان محاذوں پر فوج، رینجرز اور پولس کو جس پیمانے پر قربانیاں دینا پڑ رہی ہیں وہ کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جان کے نذرانے سے بڑا اور کیا نذرانہ ہو سکتا ہے۔ ملکی تاریخ نہیں بتاتی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حالت امن میں اتنی بڑی قربانیاں دی ہوں۔ کیا اس ان دیکھی جنگ کو جاری رہنا چاہئے یا اس کے بارے میں کوئی اور قابل عمل حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے اور اختیار کی جانی چاہئے۔ کور کمانڈر کوئٹہ ناصر جنجوعہ نے کہاہے کہ ’’ بلوچستان میں ہتھیار پھینک کر امن کا راستہ اختیار کرنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور آپ اپنی ہی چیز کے لئے نہ لڑیں جن کو آپ مار رہے ہیں وہ بھی آپ کے ہیں اور پاکستان بھی آپ کا ہے ‘‘ ۔کوئٹہ سپورٹس فیسٹول کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کور کمانڈر ناصر جنجوعہ نے کہاکہ ہمیں مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے اور ملک کو دہشت گر دی سے پاک کرنا ہے۔ان کا کہناتھاکہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا ما ل ہے، ہمیں ماحول کومزید بہتر بنانے کے لئے تفریق ختم کرنی ہو گی ،پاکستان دل ہے تو بلوچستان اس کی دھڑکن ہے اور پاک فوج بھی آپ کے دم سے ہے۔ناصر جنجوعہ نے کہاکہ وہ ہتھیار چھوڑ کر امن کا راستہ اختیا کرنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان کا یہ بیان اس کامیاب ، دور رس اور نتیجہ خیز حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی بات میں کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان جب مشرقی پاکستان کی جنگ کی دلدل میں پھنسادیا گیا تھا تو حکومت نے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ یہ عام معافی ان عناصر کے لئے تھی جو قانون نافذ کرنیو الے اداروں کے خلاف بر سرپیکا رتھے۔ وہ تو سراسر اپنے ملک، اپنی افواج اور پاکستان حامی قوتوں کے خلاف جنگ کا حصہ تھے ، بھارت کے آلہ کار تھے جو بھارت کی بچھائی ہوئی بساط پر ناچ رہے تھے۔ مارچ کے مہینے سے شدت کے ساتھ جاری مسلح تصادم اور کارروائیوں کے بعد ستمبر کے مہینے میں جنرل یحییٰ خان نے عام معافی کا اعلان کیا۔ وہ اگست کے مہینے میں ڈاکٹر عبدالمالک کو غیر فوجی گورنر نامزد کر چکے تھے۔ عام معافی کے اعلان کے جواب میں مکتی باہنی نے اپنی کارروائیاں تیز کردیں۔ پس پشت بھارت تھا جو کسی قیمت پر پاکستانی حکومت اور باغیوں کے درمیان مصالحت کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ پھر بلوچستان میں بھی بھٹو دور میں فوجی کارروائی طویل عرصے جاری رہی، بعد میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت کے بلوچستان میں فوجی گورنر رحیم الدین خان نے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ پانچ سال جاری رہنے والی مسلح کارروائیوں کے دوران کئی سو فوجی، بلوچ اور عام شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ملکی معیشت ، سیاسی حالات کا تقاضہ ہے کہ اس قسم کی عام معافی کا دروازہ دہشت گرد تنظیموں ، جرائم کی دنیا آباد کرنے والے، ملک کے باغیوں کے لئے ایک بار پھر کھولنا چاہئے۔ صولت مرزا نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ وہ کراچی میں امن کے قیام میں مدد دے سکتا ہے اور ایسے افراد سے رابطہ کرا سکتا ہے جو سلطانی گواہ بنیں گے ۔ یہ قدم اس لئے بہتر ہوگا کہ کراچی میں مستقل امن کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی گولی چلائے بغیر نہ صرف اہم معلومات حاصل ہو جائیں گی، بلکہ ایسے لوگ بھی سامنے آ سکیں گے جو ٹارگٹ کلنگ، بھتہ مافیا، قبضہ مافیا، بنکوں کو لوٹنے وغیرہ جیسے بھیانک جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ اندرون سندھ ڈاکو ؤں کو بھی اس سے مستفید ہونے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ کالعدم قوم پرست تنظیم سے وابستہ لوگوں کو بھی یہ موقع دیا جائے کہ حکومت ان کی گمراہی کو معاف کرے۔ بلوچستان میں بھی یہ عمل اختیار کیا جائے۔ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو بھی راہ راست پر لانے کے لئے یہ نسخہ استعمال کیا جانا چاہئے۔ یہ سارا عمل مشکل ضرور ہے، بہت توجہ کا طالب ہے ، لیکن غیر اہم اور ناممکن نہیں ہے۔ عام معافی کی صورت میں معلوما ت کا ایک ایسا وسیع خزانہ ہاتھ آئے گا جو حکومت خاطر خواہ رقم خرچ کر کے پوری طرح حاصل نہیں کر پاتی ہے۔ ہمارے اندرونی معاملات میں بھارت کی مداخلت کی کہانی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پورے ملک کے مختلف علاقوں میں کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں میں بھارت اور بلیک واٹر زیادہ ہی سر گرم ہیں۔ ان کی تو یہ ہی خواہش ہے کہ پاکستان کے عسکری ادارے اس قدر مصروف رکھے جائیں کہ ان کی قوت ہی سلب ہو جائے۔ ایسا کرنے کی اجازت کیوں دی جائے۔ حکومت اگر عام معافی کا اعلان کرتی ہے تو پھر معافی سے استفادہ کرنے والے تمام لوگوں کو مصروف رکھنے کا قابل عمل منصوبہ بھی بنایا جائے۔ ایسے مراکز کا قیام فوری طور پر عمل میں لایا جائے جہاں دہشت گردی اور جرائم میں دھنسے ہوئے لوگوں کی بحالی ہو جائے، نفسیاتی علاج ہو، انہیں بھی معاشرہ کا ذمہ دار اور کار آمد شخص بنایا جائے۔ انہیں ان کے گزر اوقات کے لئے ملازمتیں دی جائیں۔ عام معافی کا مطلب ہر گز یہ نہ ہو کہ جرائم پیشہ یا دہشت گرد افراد کو آزاد چھوڑ دیا جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہی گزشتہ 565 دونوں کے دوران 90 کے لگ بھگ افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ صرف گرفتاریاں اور ہلاکتیں حل نہیں ہوا کرتی ہیں۔ یہ ہلاکتیں دیگر مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ کئی لوگ ایسے بھی تو ہوں گے جن کے لواحقین میں ان کے بیوی بچے بھی ہوں گے ، ان کی نشو و نما اور گزر اوقات کا کیا ہو گا۔ اگر کسی کا شوہر یا والد دہشت گردی یا جرائم میں ملوث ہو گیا ہے تو اس کی سزا اس کے بیوی بچوں کو کیوں دی جائے جب کہ وہ ان کے جرائم میں شریک کار تو نہیں ہوتے ہیں۔ کسی ایک شخص کے جرم کی سزا اس سے وابستہ دیگر لوگوں کو کیوں دی جائے۔ ہمارے ملک میں حکومتیں اس پہلو کو عام طور پر نظر انداز کر دیتی ہیں۔  صولت مرزا کے ریکارڈ شدہ بیان کے نشر ہونے کے بعد بعض ٹی وی اینکر حضرات سے یہ انکشاف کرایا گیا کہ عزیر بلوچ کا بیان بھی آئے گا۔ یہ دانستہ کارروائی اس لئے کی گئی کہ صولت کے بیان کے بعد اٹھنے والے طوفا ن کو تھاما جائے۔ پاکستان کے خفیہ ادارے بھی خوب ہیں۔ ضرورت کے وقت اگر کوئی چیز میسر نہ ہو تو بعد میں اپنی وقعت کھو دیتی ہے۔صولت کا یہ ہی بیان اگر اس کے مقدمے کا حصہ ہوتا تو کراچی میں طویل عرصے جاری رہنے والی خون ریزی پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ حکومت اور ایم کیو ایم مخالف عناصر صولت مرزا کے بیان کی کتنی ہی پذیرائی کیوں نہ کریں اور وہ کتنا ہی سچ کیوں نہ ہو ، لیکن ایم کیو ایم کے حامی اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انہیں یہ سب کچھ پروپگنڈہ نظر آتا ہے اور وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کے پس منظر میں ایم کیو ایم کو ناکارہ بنانا یا ختم کرنا مقصود ہے ۔ اعتماد سازی بھی حکومت کے پیش نظر ہونا چاہئے۔ حکومت نے عزیر بلوچ کو لانے والی جو ٹیم دبئی بھیجی تھی وہ بھی کسی نہ کسی سبب ناکام آگئی ہے۔ ایک ٹی وی نے کہا کہ عزیر بلوچ نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زردار ی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کے کہنے پر قتل کر تا رہاہے۔ آصف علی زرداری کے پاس بھی وقت فالتو تھا کہ عزیر بلوچ جیسے شخص کو براہ راست کسی کو قتل کرنے کا حکم دیتے۔لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاست دانوں کی کردار کشی کا ایک بھونڈا ہتھکنڈہ ہے۔ لوگ اس لئے اعتبار نہیں کرتے کہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ سیاست دانوں کے خلاف اسی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ہیں۔ اس تماش گاہ میں حکومتیں اپنا اعتبار کیوں کھو تی ہیں۔ صرف ایک خبر پڑھیں۔ سینٹرل جیل اڈیالہ پنڈی میں ایان علی کو اہم شخصیات جیسی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ انہیں ملاقاتوں کی سہولتیں بھی حاصل ہیں۔ انہیں کھانا بھی جیل کے باہر سے منگوانے کی خصوصی اجازت ہے ۔ ایان ایک ماڈل ہے ، جسے بھاری امریکی کرنسی دبئی لے جاتے ہوئے اسلام آباد ایئر پورٹ پر حراست میں لیا گیا۔رحمان ملک کے بھائی نے ملاقات کے لئے فرضی نام کا سہارالیا۔ اخبار جنگ کے مطاق ایان علی اور رحمان ملک کے بھائی خالد ملک کے درمیان تقریباً ایک گھنٹہ ملاقات جاری رہی اور انہو ں نے ایان علی سے ملاقات کے لئے جعلی نا م کا سہارالیا۔ سابق وزیر داخلہ اور پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر رحمان ملک کہتے ہیں کہ ان کے بھائی کا ماڈل ایان علی سے باز یاب ہونے والے پیسے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کا خیال ہے کہ دراصل انہیں پھنسایا جارہا ہے۔ کرنسی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار ماڈل ایان علی کو اڈیالہ جیل میں وہ تمام سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں جس کا انہیں کوئی حق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ایک خوبصورت لڑکی ہے، جوان ہے، اور اس کے دوستانہ تعلقات کا دائرہ وسیع ہے ۔ سبھی کرم فرما اس کی مدد کے لئے تیار ہیں۔ کیا یہ سب کچھ غیر قانونی نہیں ہےَ ؟ ایان کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ پاکستان میں حکمران اور افسران اور قانون نافذ کرنے والوں کی آنکھیں با اثر افراد کے معاملہ پر اکثر بند رہتی ہیں۔ بے اثر لوگ ان کی نظر میں بے وقعت ہیں۔ یہ دہرا معیار ہی ہماری ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ *

مزید :

کالم -