سوشل میڈیا+ خرابی اور خوبی ساتھ ساتھ!
آج بات کرتے ہیں دور جدید کی ٹیکنالوجی کی، جسے عمومی طور پر اب سوشل میڈیا کے نام سے یاد کیا، بلکہ بدنام کیا جا رہا ہے۔ یہ ایجاد جسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کہا گیا، بہت مفید ہے۔کمپیوٹر کی ایجاد نے یوں بھی دُنیا تبدیل کر کے رکھ دی۔ اب سارے ہی کام کمپیوٹر سے لئے جا رہے ہیں اور موبائل فون کا تعلق بھی اسی ٹیکنالوجی سے ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر دوسرے فرد کے پاس فون اور ان میں سے اکثر کے پاس ایک سے زیادہ سمیں بھی ہیں۔ حتیٰ کہ کھوتی ریڑھی والا اور اینٹیں اٹھانے والے بھی یہ فون استعمال کر رہے ہیں۔ کاروبار،معلومات اور تعلقات کے حوالے سے اس کا مفید استعمال ہو رہا ہے، جبکہ تعلیم کے شعبہ میں بھی انقلاب برپا کر دیا گیا ہے۔ یوں یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی بہت زیادہ مفید ہے، لیکن ہر ایک کام کے دو پہلو ہوتے ہیں اور اس کا انحصار استعمال کرنے والے پر ہے کہ وہ اس کا صحیح استعمال کرے تاکہ یہ مفید ثابت ہو، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے متعدد دوسرے مفید شعبوں اور انتظامات کو تو غلط استعمال کیا ہی تھا اب اس ٹیکنالوجی کا بھی غلط بلکہ مجرمانہ استعمال شروع ہو گیا ہے۔ ہم اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہمہ پہلوؤں پر تو غور نہیں کر سکتے تاہم آج موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال پر بات کرتے ہیں جسے انتہائی بھدے طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ ایسے شرارتی حضرات کو پکڑنے کا کوئی سلسلہ شروع نہیں کیا گیا۔موبائل فون کے ذریعے پہلے مذاق پھر فحاشی اور فحش کلمات کا سلسلہ شروع ہو گیا تاہم جب سے انٹرنیٹ کی سہولت میسر آئی اور فیس بُک اور ٹویٹر وغیرہ نے کام شروع کیا، تب سے یہ ذریعہ شرپسندوں کے کھیل کا حصہ بن گیا ہے۔ اب ہر کوئی جانتا ہے کہ سوشل میڈیا کیا ہے اور کس طرح اس ٹیکنالوجی کو بھدے طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کمپیوٹر کو پہلے ہی مکس اور ری مکس والے فارمولے کے تحت تصویریں الٹ پلٹ کر بلیک میلنگ کا ذریعہ بنایا گیا تو اب یہ وبا موبائل فون تک پہنچ چکی،ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم10کروڑ سمیں جاری کی گئی ہیں، تعداد اس سے بھی بڑھ سکتی ہے اس صنعت کے پھلنے پھولنے کا اندازہ موبائل فون کے اشتہارات ہی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس تمہید طولانی کے بعد گزارش کرنا ہے کہ فیس بُک اور ٹویٹر استعمال کرنے والوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنا چاہئے، لیکن ایسا ہو نہیں رہا، بلکہ اب تو فیس بُک اور ٹویٹر غلط استعمال کرنا ایک ہابی بن گئی ہے۔ اب تو اس ایجاد نے صحافت بھی آسان کر دی ہے، ہمارے بہت سے جاننے والے کمپیوٹر کی مدد سے اچھے خاصے کالم نگار بن گئے ہیں کہ انٹرنیٹ پر ایسی ساری سہولتیں موجود ہیں تاہم جو تجربہ ہمیں ہو رہا ہے وہ بڑا ہی تکلیف دہ ہے۔ فیس بُک اور ٹویٹر استعمال کرنے والے جعلی طور پر دوسروں کا جذباتی استحصال کرتے ہیں جبکہ اس کے ذریعے جرائم بھی ہونے لگے ہیں۔ ہم نے موبائل فون لیا تو دفتری امور کی انجام دہی میں کافی سہولت ہونے لگی اور رابطے بھی بہتر ہو گئے۔ اس میں ہم عمومی طور پر مطمئن تھے کہ تنگ کرنے والوں کی تعداد تھوڑی سی تھی اور مفید استعمال بہت زیادہ تھا۔ اب صاحبزادے نے ہمیں فیس بُک پر لگا دیا ہے اور ابھی ہم ابتدائی مراحل میں ہیں، بلکہ سیکھ رہے ہیں، اس تربیت ہی کے دوران بڑے عجیب عجیب سے واقعات ہونے لگے اور ہمیں پھر سے اپنے استاد (صاحبزادے) کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ ہوا یوں کہ جونہی ہم سماجی رابطوں پر نظر ڈالنے کے لئے فیس بُک اکاؤنٹ کھولتے ایک دو صاحب اور محترمہ آ موجود ہوتیں۔ معززین سے تو کچھ سلام دعا کا تبادلہ بھی ہوا،جبکہ خواتین کے پردے میں نوجوان لڑکے کی موجودگی بھی لازم ٹھہری اور بعض غیر ملکی خواتین بھی ٹپک پڑیں، اب یہاں خود فیس بُک والوں نے بعض تحفظات کا اہتمام کیا ہوا ہے اور جونہی جانے پہچانے فراڈ والا کوئی پیغام نمودار ہوتا ہے، کمپیوٹر خود سے تحریری طور پر آگاہ کرتا ہے کہ اس پیغام کا جواب دینا ضروری نہیں اور اسے ’’ڈیلیٹ‘‘ کر دیں، چنانچہ ہدایت پر عمل کیا جاتا ہے، لیکن بعض پیغامات مہذبانہ تو ہوتے ہیں، لیکن ان کے پردے میں مذاق کیا جاتا ہے، ہم نے اپنا تھوڑا سا وقت ایسے نوجوانوں کے لئے وقف کیا اور تجربہ کیا کہ دیکھیں نیک کام بھی کیا جا سکتا ہے کہ نہیں، چنانچہ چند ایک نوجوانوں کو بتدریج یہ کہنا شروع کیا کہ وہ اچھے بیٹوں اور بچوں کی طرح اپنے مستقبل کا دھیان کریں اور اپنے والدین کی خاطر تعلیم پر توجہ دیں۔ یقین مانیں، یہ مٹی اب بھی بڑی زرخیز ہے کہ کم از کم چھ ’’شرارتی‘‘ بچوں میں سے تین کے پیغامات بند ہو گئے ۔ ایک نے باقاعدہ معذرت کی اور آئندہ سے شرارت نہ کرنے کا وعدہ کیا، جبکہ دو بچے ایسے تھے،جنہوں نے بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور اپنے تعلیمی کیریر کے بارے میں بتا کر مستقبل کی بات کرنے لگے ان بچوں نے اب بڑی سعادت مندی سے رابطہ رکھا ہوا ہے اور کبھی کبھار انکل سے سلام دعا کر کے دُعائیں لے لیتے ہیں۔ اب جو شرپسند رہ گئے ان کا علاج جواب نہ دینا اور ان کی بات رد کرنا ہے اور ایسا کیا جا رہا ہے اسی میں ایک تجربہ یہ بھی ہوا کہ ایک ’’دوست‘‘ (مجبوراً یہی کہا جائے گا) نے حد کر دی اور وہ محبت جتا کر تنگ کرنے لگے ان سے بڑی مشکل سے جان چھڑائی(ایسے ڈھیٹ بھی ہوتے ہیں) ایسے حضرات کا بھی علاج وہی ہے کہ پیغام پڑھا اور سُنا ہی نہ جائے اور نام آتے ہی رابطہ ختم کر دیا جائے۔ اس میڈیم کے فوائد تو کھلتے رہیں گے، لیکن سب سے بڑا فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ بہت سے ایسے دوستوں سے ملاقات اور بات ہو جاتی ہے جن سے بات کئے مدت ہی ہو چکی تھی، سماجی رابطوں کے حوالے سے اچھا ذریعہ ہے، اسے ہم جیسے شرفاء بھی کثرت سے استعمال کرنے لگے ہیں اور اپنی تصویروں سے مزین کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک بہتر عمل وہ ہے جو چند برخور دار اور دوست کرتے ہیں۔ یہ برخوردار اقوال زریں بھیجتے اور صبح و شام بخیر بھی کہتے۔ پھر ان کی بھیجی گئی معلومات یا بزرگوں کی نصیحت اور اقوال پر دوستوں کی رائے بھی آتی ہے۔ اکثر دوست خوبصورت اور اچھے تبصرے بھی کرتے اور اپنی تحریریں بھی بھیجتے ہیں۔ یوں یہ سلسلہ معلومات افزا بھی ہے،اس سلسلے میں ، مَیں ان دوستوں اور بچوں سے جو بے تحاشہ تصاویر بھیج کر اپنا وقت گزارتے اور دلچسپی لیتے ہیں۔ گزارش کروں گا کہ وہ ذرا ان میں کمی کر دیں اور مختلف امور پر اپنی رائے سے نوازا کریں۔ اس استدعا اور درخواست کے ساتھ اختتام کہ اس ذریعے کو معلومات اور نصیحت ہی کے لئے استعمال کیا جائے گا، منفی پہلوؤں سے اجتناب ہو گا۔