ریاست ، نجی ادارے اور منافع خور

ریاست ، نجی ادارے اور منافع خور
ریاست ، نجی ادارے اور منافع خور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پوری دنیا میں تعلیم کو بنیادی شہری حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ریاستیں شہر یوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کا بندوبست کرتی ہیں۔ یورپ اور دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک میں معیاری تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔ لندن اور امریکہ میں ہائی سکول تک نہ صرف مفت تعلیم دی جاتی ہے بلکہ کتابیں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ لندن اور امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کافی مہنگی ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی ریاست طالب علموں کو اپنی ضمانت پر قرضے فراہم کرتی ہے۔ دنیا میں چین اور جنوبی کوریا کی طرح کے ممالک نے معاشی ترقی کے لیے تعلیم کے شعبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔ ان ممالک میں تعلیم کو عام کر کے آبادی کو جدید دور کے لیے تیار کیا گیا۔ اگرچہ ان ممالک میں صرف تعلیم پر ہی نہیں بلکہ زرعی اصلاحات پر بھی ریاستی سرمایہ کاری کی گئی۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کہ بہت سے عرب ممالک میں شرح خواندگی 100 فیصد ہے۔ لیکن آبادی نہ تو جدید دور کی روشن خیالی کو اپنا سکی ہے اور نہ ہی زرعی شعبے میں ترقی کر سکی۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم معاشی اور سماجی ترقی کے لیے لازمی تو ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ بہت سے ممالک میں خود معاشی ترقی تعلیم کے پہیے کو آگے دھکیل رہی ہے۔ پاکستان میں معاشی طور پر ترقی کر نے والے علاقوں میں تعلیم مقداری اور معیاری پہلوؤں سے آگے بڑھ رہی ہے اس سلسلے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان میں معاشی ترقی کرنے والے علاقے تعلیم میں بھی آ گے ہیں۔ کیونکہ مردم شماری کے نہ ہونے کی وجہ سے اعداد و شمار میسر نہیں ہیں۔


پاکستان کے ان علاقوں میں جہاں جاگیرداری طرز کا کلچر ابھی تک قائم ہے۔ تعلیم کو معاشرے میں سب سے نچلا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں ریاست کو تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ زرعی اصلاحات کرنا لازمی ہے۔ اگرچہ ایک مکتبہ فکر یہ بھی ہے کہ اگر ان علاقوں میں تعلیم عام کر دی جائے تو جاگیرداری نظام خود بخود ختم ہو جائے گا۔پاکستان کا پورا نظام تضادات کا شکار ہے۔ ایک طرف نجی سرمایہ کار اپنا منافع بڑھا نا چاہتے ہیں تو دوسری طرف عوام کا ایک بہت بڑا حصہ جو بڑھتے تعلیمی اخراجات سے ذہنی مریض ہو گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے والدین کی اس پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے قانون کے ذریعے نجی شعبہ پر پابندی عائد کر دی ہے کہ وہ اپنی من مانی کرتے ہوئے فیسیں نہیں بڑھا سکتا۔ اس قانون کے تحت نجی شعبہ فیسوں میں سالانہ پانچ فیصد اضافہ کر سکتا ہے۔ پرائیویٹ ادارے شدید احتجاج کر رہے ہیں کہ یہ قانون منڈی کے اصولوں کے خلاف ہے ہمارے ہاں یہی مسئلہ ہے کہ ہر شعبہ بے لگام منافع خوری کی طرف مائل ہے۔ تعلیم کا شعبہ معاشرتی ارتقاء میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ شعبہ کمرشلزم اور پیور کاروباری لوگوں کے ہاتھ میں آنے کی وجہ سے انتہائی پستی کا شکار ہے۔ اس لئے اکثر ممالک میں ریاست تعلیمی شعبے کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے یا تعلیمی اداروں کو غیر منافع بخش تنظیموں کے تحت چلانے پر زور دیتی ہے۔


پاکستان کی ریاست کو بھی دنیا کی تقلید کرنا پڑے گی۔ ہاں البتہ پاکستان کے ان علاقوں میں جہاں جاگیرداری اور قبائلی نظام ختم ہو چکا ہے۔ تعلیم معاشرے میں اولین ترجیح کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ان علاقوں میں بھی تعلیم کی طلب کو پورا نہیں کیا گیا۔ جہاں تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وہاں بھی تعلیمی معیار مفقود ہے۔ بلکہ یہ بھی ہوا ہے کہ ریاست کے فراہم کردہ تعلیمی معیار میں خاطر خواہ کمی بھی آئی ہے۔ چنانچہ اس تعلیمی خلاء کو نجی تعلیمی اداروں نے پُر کیا ہے۔ لیکن نجی تعلیمی ادارے مہنگے ہونے کی وجہ سے صرف خوشحال اور دوسروں کو دیکھ کر منہ لال کرنے والا طبقہ ہی بچوں کو سکول بھیج سکتا ہے اور یہیں سے طبقاتی تقسیم شروع ہوتی ہے۔ پاکستان ان چند ملکوں میں سے ہے جہاں عوام اور خواص کی تعلیم کے بالکل الگ الگ ادارے ہیں۔ انہی نجی تعلیمی اداروں کا پھیلاؤ سماجی ہم آہنگی کی نفی کرتا ہے اور عوام کے مختلف طبقوں کو معاشرتی سطح پر ایک دوسرے سے بیگانہ بنا دیتا ہے۔ پہلے تقریباً ہر طبقے کے لوگ سرکاری اداروں میں پڑھتے تھے اور معاشرے میں مختلف طبقات میں آپس میں ہم آہنگی پیدا کرتے تھے۔ اب تو ان مہنگے سکولوں میں پڑھنے والے بچے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں یا موبائیل فون اور پلے اسٹیشن پر ہی گزارا کرتے ہیں اور سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچے گلیوں میں کھیلتے پائے جاتے ہیں۔ ہمارے وقتوں میں پنجاب میں ہر اچھا طالب علم اعلیٰ تعلیم کے لیے پنجاب یونیورسٹی یا گورنمنٹ کالج لاہور میں جاتا تھا۔ اس سے معاشرے کے مختلف طبقوں کے نوجوانوں میں ذہنی ہم آہنگی کی فضا قائم ہو جاتی تھی۔ اب خوشحال گھرانوں کے لوگ ان نجی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں نچلے، درمیانے طبقے کے رہنے والوں کی رسائی نہیں ہے۔ جس سے تعلیمی نظام معاشرے میں طبقاتی تقسیم جاری و ساری رکھنے کا ذریعہ بن چکا ہے اور نجی تعلیمی ادارے خالص منافع حاصل کرنے کے لیے قائم کیے جا رہے ہیں۔ جس سے معیار تعلیم کا تو پتہ نہیں ، البتہ ان اداروں نے والدین کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیونکہ بھاری فیسوں کے چالان کے ساتھ ساتھ مختلف حیلوں بہانوں سے بل بھیجتے رہتے ہیں۔اسی پریشانی کو دیکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے والدین کے مطالبے پر نجی اداروں کے لیے قانون سازی کی ہے۔ لیکن یہ اس کا دیر پا حل نہیں ہے۔ دیر پا حل کے لیے ان تعلیمی اداروں کو نان پرافٹ بنیادوں پر چلایا جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب یہ منافع خور اور کاروباری حضرات ان اداروں سے الگ ہو جائیں گے۔ ریاست پاکستان کو سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم بہتر کرنا ہو گا تاکہ لوگ ان نجی اسکولوں کے چنگل سے نکل سکیں اور معاشرہ میں یہ طبقاتی تقسیم کم ہو سکے۔

مزید :

کالم -