ایم کیو ایم: حال کیا، مستقبل کیا۔۔۔؟

ایم کیو ایم: حال کیا، مستقبل کیا۔۔۔؟
 ایم کیو ایم: حال کیا، مستقبل کیا۔۔۔؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کسی نے کہا:’’2016ء ایم کیو ایم،خصوصاً الطاف حسین کے لئے ایک انتہائی نوعیت کا سال‘‘! پوچھا: ’’کیا اس کا مطلب‘‘۔۔۔ تخت یا تختہ‘‘۔۔۔ کہا: ’’تخت بالکل نہیں‘‘، پوچھا: کیا شہر کے حالات بھی تبدیل ہو رہیں گے‘‘۔ فرمایا: بالکل ہوں گے، جانئے شہر، ایم کیو ایم کے دور سے قبل جہاں تھا۔ مراجعت کرے گا!‘‘کچھ دیر ٹھہر کر کہا ’’یونہی سی بات نہیں، پتھر پر لکیر ہے! اور یہ کہہ کر انہوں نے ایک ہیوی پتھر پر لکیر لگا دی! یہ1990ء کی بات ہے۔ مَیں ایک سیاسی نوعیت کے میگزین میں کام کر رہا تھا۔میرا کام سیاسی، ادبی اور سماجی نوعیت کے مضامین اور انٹرویو کرنا تھا۔ بڑی بڑی نامور شخصیات سے ملتا۔ شہر بہرحال ایم کیو ایم کے زیر کنٹرول تھا۔حالت حد درجہ زبوں، ذرا سی بات ہوتی اور ایم کیو ایم ہڑتال کی کال دے دیتی۔یکایک سارا شہر بند ہو جاتا۔ دو کروڑ آبادی کا شہر پندرہ بیس منٹ میں کھٹا کھٹ بند، بڑے بازار، گلی محلوں کی پان شاپس بھی نہ کھل پاتیں۔ کون نہیں جانتا کراچی بہرحال ملی جلی آبادی کا شہر ہے۔ خصوصاً پشتو بولنے والوں کا تو یہ دُنیا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اگر مہاجر آبادی کے کاروباری مراکز اور گلی کوچے بند ہو جاتے ہیں،پھر سمجھ میں آتی، لیکن اور لوگ بھی اپنے کاروبار بند کر دیتے۔ بات سمجھ میں نہ آتی!

ایک دِن اطلاع ہوئی، حکومت الطاف حسین کا چہرہ دیکھنا نہیں چاہتی۔ میگزین کے مدیر میرے خیالات و افکار سے واقف تھے۔ سمجھ نہیں آتا تھا، مجھے کیوں لے کر آئے۔ ایک روز کہنے لگے: ’’کچھ عرصہ ٹھہر جایئے، پھر آپ کو پنجاب سے پاسپورٹ ، ویزہ لے کر یہاں آنا پڑے گا‘‘! لیکن اس کے ساتھ وہ ایم کیو ایم کے حوالے سے سنجیدہ نوعیت کے مضامین میں مجھے دے دیتے، جبکہ مَیں کبھی ایم کیو ایم کے حق میں نہیں لکھتا تھا۔ جیسا چہرہ تھا، ویسا ہی پیش کر دیتا تھا۔ مَیں ایم کیو ایم کی سیاست کے سوا کچھ نہ لکھتا، شہر کا انہوں نے ستیا ناس کر دیا تھا، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہ کچھ ہو جائے،حکومت یا کوئی گروہ یا کوئی سیاسی پارٹی ایم کیو ایم کا بال بیکا نہیں کرسکتی، کیونکہ سچائی یہی تھی۔ اصل میں ایم کیو ایم سے اختلاف اصولی تھا، مگر حقیقت کا بطلان کس طرح کیا جاتا، جبکہ اسے عامتہ الناس میں بے حد مقبولیت حاصل تھی، خصوصاً الطاف حسین کی ذات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا، چنانچہ برملا لکھتا: ’’ جو لوگ ایم کیو ایم میں کسی اور قیادت کے خواہاں ہیں، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، کیونکہ ایم کیو ایم میں نہ آج الطاف حسین کا مدمقابل ہے اور نہ آنے والی کل میں ہو گا، بلکہ مجھے صورت حال یوں دکھائی دیتی، جب وہ نہیں رہیں گے، تب بھی ایم کیو ایم سربراہ وہی ، جسے الطاف حسین قبل ازیں ’’سَند‘‘ دے چکے ہوں گے اور ہاتھ سے دستخط اور مہر ٹھوک چکے ہیں گے۔ اب بہرحال غالب گمان یہ ہے، مستقبل کے لئے ایم کیو ایم کے ’’سربراہ‘‘ کا تعین وہ کر چکے ہیں!


ایم کیو ایم بہرحال کوئی نہ سمجھنے والا معمہ نہیں ہے۔ یہ دراصل الطاف حسین ہی کا دوسرا نام ہے، اور ان کا کہا ہی حرف آخر۔۔۔!ایم کیو ایم کی پوری تاریخ میں ایک واقعہ ایسا نہیں ملتا کہ اس کے کسی دوسرے لیڈر،رابطہ کمیٹی، قومی یا صوبائی اسمبلی کے ممبر یا کسی نے بھی کچھ چاہا ہو اور وہ ہو گیا ہو، کوئی دور رہا ہو۔ یہاں ہوا وہی ہے جو الطاف حسین نے چاہا ہے، اِس لئے اگر یہ کہا جائے،ایم کیو ایم میں آمریت ہے، فسطانیت ہے۔ یہاں کسی اور کی چل ہی نہیں سکتی اور یہ کہ ’’جمہوریت‘‘ سے فی الاصل پارٹی کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے، تو اس میں کوئی بات بھی غلط نہیں ہو گی۔ ’’وہ‘‘ آمریت، آمریت چلاتے ہیں، جبکہ ایم کیو ایم جب سے بنی ہے، اس عرصے میں ایک سے زائد آمر مُلک میں آئے اور چلے گئے اور کتنی ہی حکومتیں بدل گئیں، لیکن ان کا اپنا ’’کلہ‘‘ گڑا ہوا تھا اور گڑا ہوا ہے!’’اب وہ یا کوئی کہے وہ آمر نہیں ہیں۔ کوئی بات نہیں مانے گا!


بہرحال مَیں نے90 میں تحریر دے دی تھی۔ ایم کیو ایم ، میں حکم نادر شاہی الطاف حسین کا چلتا ہے اور وہ محض نام کے ’’مغل شہنشاہ‘‘ نہیں۔ اپنی ’’ذات‘‘ میں بھی مغل ہیں۔اب کہا جائے گا یہ تو عجیب بات ہے، مہاجر (اکثریت) نہیں چاہتے ہیں اور ووٹ دیتے ہیں اور ان کے پرستار اور مداح ہی نہیں، مشاق بھی ہیں، لیکن ایک شخص، آسمان سے اُترا ہے جو اُن کا یا ان کی سیاست کا ناقد ہے! اور حالیہ بلدیاتی الیکشن کی مثال دی جائے گی۔ بہت سے لکھنے اور بولنے والوں نے بھی انہیں الیکشن کی کسوٹی پر رکھا ہے‘‘ وہ دیکھئے جناب ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد میں جیت گئی، عامتہ الناس نے ایم کیو ایم کے حق میں ووٹ دے دیا!‘‘کالم کی وجہ تسمیہ یہی ہے، ایم کیو ایم کی کامیاب اور اکثر تجزیہ کاروں کی کور چشمی: قصور ان کا نہیں بیشتر کی عمریں بھی تو71-72 ہو چکی ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے:’’کیا یہ کامیابی دُنیا میں عجوبہ، نرالی بات ہے یا کیا ہے، کیونکہ فی الاصل تو یہ کوئی بات ہی نہیں ہے، دھوم دھڑکا ہوا، میڈیا پر نعرے بازی ہوئی۔ ہُرے ہُرے الطاف بھائی، مگر پھر کیا ہوا۔ اب منظر کیا ہے؟

چیزوں کو ایک دو واقعات سے نہیں تاریخی حوالوں سے دیکھنا چاہئے، حالیہ تاریخ میں دیکھئے۔ کیا نریندر مودی ایسے انتہا درجے کے متعصب شخص یا پارٹی کو عوام نے اور کٹر ہندوتوا کے لوگوں نے ووٹ نہیں دیئے، ایم کیو ایم نے تو مُلک نہیں، صرف سندھ کے دو تین شہروں تک فتح پائی۔ ذرا ادھر بھی تو دیکھئے۔ہندو توا کا عشق، دوسروں سے حد درجہ نفرت۔۔۔ تاریخ میں اور پیچھے جائیے، ایڈوولف ہٹلر سے بڑھ کر کس نے شہرت اور مقبولیت پائی تھی۔ کروڑہا جرمن عوام کا گویا ’’دیوتا‘‘ عوام کی چاہت کی حد یہ تھی کہ ہٹلر ابھی کہیں پہنچتا نہیں تھا، لوگ ہفتوں پہلے ان محلوں، علاقوں میں جا پہنچتے تھے، گھروں سے بوریئے، بستر لے آتے اور راستوں میں پڑ جاتے کہ کب ہٹلر، ان کا ہیرو اور محبوب آئے گا کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ تاریخ عالم کے بدترین سفاک ہٹلر، جس نے ساڑھے تین کروڑ لوگ ہلاک کر ڈالے تھے، لیکن جرمن عوام کی حالت یہ تھی: وہ ہٹلر کے لئے پاگل تھے یہ کون لوگ مجنونانہ ہٹلر کے عاشق تھے۔ مداح اور چاہنے والے۔ عوام، عوام اور عوام! وہ عوام جن کے بارے میں ہمارے اہل دانش فرماتے ہیں۔’’عوام بہت باشعور ہوتے ہیں، وہ کبھی غلط فیصلہ نہیں دیا کرتے!‘‘ اگر ’’باشعور عوام‘‘ کی بجائے کبھی کبھی ’’بچوں‘‘ کا حوالہ دیا جایا کرے تو کیا ہی اچھا اور حقیقت کے مطابق ہو۔


شخصیت پرستی کب تک ہو سکتی ہے، آخر بخار اُتر جاتا ہے، ترکی میں آج’’کمال اتاترک‘‘ کس مقام اور منصب پر فائز ہیں۔سوویت یونین میں مدغم کئی ریاستیں جو اَب آزاد ہو چکی ہیں۔ سٹالن اور لینن کہاں پائے جاتے ہیں چین کے عظیم رہنما یا بھارت میں جواہر لعل نہرو وغیرہ یہ ہمیں تاریخ بتا رہی ہے، زیادہ کہنے کو جی نہیں چاہتا۔دو دہائی قبل کی بات ہے ’’سب رنگ‘‘ والے شکیل عادل زادہ سے پوچھا: تب ان کے ڈائجسٹ کی اشاعت لگ بھگ دو لاکھ ہو چکی تھی۔ آخر یہ سب کچھ کب تک رہے گا۔ یہ عظیم الشان کامیابی۔ انہوں نے نظر مجھ پر ڈالی، ذرا مسکرائے اور پھر سب رنگ کی تاریخ ساز کامیابی کا دروازہ وا کرتے کہا: ’’جب تک مَیں ہوں!‘‘ اب آپ ایم کیو ایم کے مستقبل پر بات کر لیجئے!

مزید :

کالم -