بقائے پاکستان کا تقاضا
کسی بھی ملک کی تشکیل، استحکام، خوشحالی کا انحصار اُس کے اجزائے ترکیبی پر ہوتا ہے، اجزائے ترکیبی میں اولیت اُس کی افرادی قوت کو حاصل ہوتی ہے اُس کے بعد زمین آب و ہوا اور محل وقوع وغیرہ۔ اجزائے ترکیبی کی ہیتِ خواص اور مادیت جتنی منفرد ہو گی قوموں کی صف میں اُس قوم کو اتنا ہی ممتاز مقام حاصل ہو گا۔ بدقسمت ہوتے ہیں وہ ملک جو اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے تو دُنیا کی صفِ اول کی مملکت ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں،مگر واقعتاً اُن کا شمار پسماندہ اور مغلوب قوموں میں ہوتا ہے اس کی ایک بڑی مثال خود مملکتِ پاکستان ہے۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے پاکستان دُنیا کی خوشحالی ترین اور ترقی یافتہ مُلک بننے کی صلاحیت رکھتا ہے،لیکن ہمارے حکمران کشکول لئے غیروں کے در پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں اور ستم بالائے ستم کہ جو ہمارے ازلی دشمن ہیں اور جن کی وجہ سے ہم مسائل کا شکار ہیں اُنہیں سے امداد کے طلب گار بھی رہتے ہیں۔ ایسی سرزمین کے حکمران امداد کی دہائی دے رہے ہیں جو اپنے دامن میں خوشحالی کے تمام وسائل سمیٹے ہوئے ہے،جس کی زرخیز زمین سونا اُگلنے کی صلاحیت رکھتی ہے،جس کے دریاؤں میں بہنے والی چاندی سمندر میں غرق ہو رہی ہے، جس کے صوبہ بلوچستان میں سونے، چاندی،یورینیم کے ذخائر کسی تیش�ۂ فرہاد کے منتظر ہیں جس کی تہوں میں رواں تیل اور گیس کے ذخائر زمین پر اُبلنے کے لئے کسی ضربِ مومن کے منتظر ہیں، جس کی دھرتی پکار پکار کر کہہ رہی ہے بدنصیب تھر تیرے سینے میں8کھرب ڈالر کا کالا سونا صدیوں تک تمہاری بدحالی کو خوشحالی میں بدلنے کے لئے موجود ہے۔
تم کدال اٹھاتے کیوں نہیں،جس کا محل وقوع اقوام عالم میں اسے فوقیت عطا کرتا ہے، دُنیا کی ترقی یافتہ قوم بننے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود ہم پسماندگی کا شکار کیوں ہیں اور اپنے معاشی اور حربی مسائل کے حل کے لئے غیروں، بلکہ اپنے ازلی نظریاتی دشمنوں کی امداد کے منتظر کیوں رہتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ نااہلی خود داری سے عاری خود غرضی، جاہ پرست ’’اشرافیہ کا حکمران مافیہ‘‘ ہے، جس میں سیاست دان،جاگیر دار سیاسی علماء، مزارات کے دُنیا دار گدی نشین، سرمایہ دار، افسر شاہی، شوق حکمرانی کا شکار طالع آزما فوجی آمر شامل ہیں۔ اس اشرافیہ کے آپس میں رشتے ناطے ہیں۔یہ سالے بہنوئی ہیں، سسر داماد ہیں، پھوپھی بھتیجے، باب بیٹا، کزن اور بھائی، بھتیجے ہیں۔ یہ طبقہ بزعم خود حکمرانی کے لئے پیدا ہوا ہے۔یہ حق حکمرانی کے لئے عوام کے لئے نہیں لڑتے آپس میں اُلجھتے ہیں اور باری باری کبھی الیکشن سے کبھی سلیکشن سے اقتدار پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک طبقہ منی اشرافیہ کا ہے اس طبقہ کو بھی عوام یا ملک سے نہیں ذاتی مفاد سے غرض ہے اور اس غرض کی خاطر اپنی وفاداریاں تبدیل کرتا رہتا ہے، عرفِ عام میں اس طبقہ کو لوٹا اشرافیہ کہا جاتا ہے۔حکمران اشرافیہ کا ایمان اقتدار ہے چاہے وہ کیسے بھی ملے۔ الیکشن سے سلیکشن سے، آمر کی گود میں بیٹھ کر، غیر ملکی آقاؤں کے توسط سے، وطن فروشی سے، صوبائیت سے، لسانیت سے، علاقائیت سے، نظریۂ پاکستان کی آڑ میں یا نظریۂ پاکستان سے اغماز برت کر، اسلام کا سہارا لے کر یا اسلام دشمنوں کا سہارا لے کر غرض اِن کا نظریہ صرف ’’ذاتی نظریہ‘‘ ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں اِن کی سیاسی پناہ گاہیں ہیں، جہاں عوام کو بے وقوف بنانے کی ترکیبیں ایجاد کرتے ہیں اور اقتدار کے حصول کے لئے منصوبہ سازی کرتے ہیں۔ اپنے مذموم مقاصد کے لئے عوام کی جان و مال سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور حشرات الارض کی طرح اپنے پاؤں تلے روند دیتے ہیں، پاکستان اُن کا وطن ہے صرف حکمرانی اور لوٹ کھسوٹ کے لئے۔ امریکہ،سوئٹزر لینڈ، دبئی، سعودی عرب، فرانس، برطانیہ سب کے سب ان کے وطن ہیں، اُن کی اولادیں ان ممالک میں رہتی ہیں، پھلتی پھولتی اور پرورش پاتی ہیں۔ خاکم دھن پاکستان کو دشمنوں کی نظر لگ جائے یہ طبقہ عوام کو مرنے، لٹنے کے لئے چھوڑ کر اپنے دوسرے وطن بھاگ جائے گا اور شاید ایک گریۂ افسوس بھی ان کی آنکھ سے نہ ٹپکے۔
سیاست تو ایک عبادت ہے،سیاست ایک مقدس فریضہ ہے، سیاست ایسا رموزِ حکومت ہے جس میں عوام الناس اور خلقِ خدا کی خدمت کی جاتی ہے۔ اُن کی حفاظت، امن و امان، روز گار، تعلیم، روٹی، کپڑا، مکان، جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت تحریر و تقریر کی آزادی کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن 70سال بیت گئے عوام کو قیام پاکستان کے خواب کی تعبیر نہ ملی۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔نااہل حکمرانوں نے خوشحال زندگی کا ایک خواب بھی پورا نہ ہونے دیا، اپنی غیر دانشمندانہ حکمت عملی اور خود غرضانہ مقاصد کے لئے دہشت گردی کے عفریت میں جھونک دیا۔ آج بھی عوام کو بنیادی ضرورت کی کوئی چیز میسر نہیں نہ امن، نہ روزگار، نہ بجلی، نہ پانی، نہ تعلیم۔
دشمن پاکستان کی بربادی کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ یہود۔
ہنود و نصاریٰ کا اتحادِ ثلاثہ خوشحالی تو کیا ہماری سلامتی کے در پے ہیں اور ہمارے نام نہاد خود غرض سیاست دان آپس کی سرپھٹول میں مصروف ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں یہود و نصاریٰ تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے،مگر ہم انہی کو دوست کہتے ہیں انہیں سے امداد مانگتے ہیں، ہم نے قیام پاکستان کے وقت دو وعدے کئے تھے۔ ایک اللہ سے کہ ہم مملکتِ پاکستان میں نظام اسلام نافذ کریں گے۔ دوسرا خلقِ خدا سے کہ پاکستان میں اُنہیں آزادی، خوشحالی، تعلیم، روزگار میسر ہو گا۔ ہم نے خدا اور اُس کے بندوں سے کئے گئے وعدوں کی تعمیل نہ کی اور تحریک آزادی کے دوران نظریۂ پاکستان پر عمل کا وعدہ کیا تھا وہ آج تک وفا نہ ہوا۔اِندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے وقت کہا تھا آج ہم نے نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا، ہم نے عملاً اُس کو ثابت کر دیا۔آج ملک میں یکجہتی نام کی کوئی چیز نہیں، اس طبق�ۂ اشرافیہ نے عوام کو پارٹیوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
پاکستان لٹیروں کا پاکستان بن گیا ہے، اِن لٹیروں کی آپس میں سر پھٹول سے قدرت اُن ہی کی زبان سے ایک دوسرے کے کالے کرتوتوں اور لوٹ مار کی کہانیاں باہر لا رہی ہے اور عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ سُن رہے ہیں کہ اس اشرافیہ نے کس طرح عوام کی خون پسینے کی کمائی کو بے دردی سے لوٹا ہے۔اگر اس اشرافیہ نے لوٹ مار نہ کی ہوتی تو70سال کے بعد پاکستان ایک خوشحال ملک بن چکا ہوتا۔اشرافیہ کا اپنا مفاد ہو تو باہم دست و گریبان ہونے والے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔مرضی کی قانون سازی کر لیتے ہیں۔ حکومت سازی سیٹ ایڈجسٹمنٹ مخالف کو نیچا دکھانے کے لئے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیتے ہیں،لیکن قومی مفاد کے لئے سر جوڑ کر نہیں بیٹھ سکتے۔ڈیموں کی تعمیر سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی۔بجلی پانی کا بحران شدید تر ہو رہا ہے۔نئی صنعتیں تو کیا پرانی صنعتیں اور سٹیل ملز برباد ہو گئی۔
اگرچہ ہم نے بظاہر آزادی حاصل کر لی ہے، لیکن عملاً ہم آج بھی غلام ہیں۔ آزادی نام ہے سوچ اور عمل کی آزادی کا۔ سوچ اُس وقت تک آزاد نہیں ہوتی جب تک انسان روٹی، بوٹی کی سوچ سے آزاد نہ ہو اور عمل کی آزادی وہ ہوتی ہے جب عمل کا نشتر اپنے ہاتھ میں اور عمل کا ردعمل برداشت کرنے کی ہمت بھی ہو۔
پاکستان کے محب وطن عوام کو اب سمجھ لینا چاہئے کہ اقتدار کی دوڑ میں شریک تمام اشرافیہ کا مقصد صرف اقتدار پر براجمان ہو کر اپنے مفادات کو تحفظ دینا ہے۔ جب تک یہ اشرافیہ اقتدار پر قابض ہے ملک کی بقا کو خطرات لاحق رہیں گے اور خوشحالی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو گا۔بقائے پاکستان کا تقاضہ ہے کہ وطنِ عزیز کی سول سوسائٹی اب متحرک اور منظم ہو، بالکل اسی طرح جس طرح تحریک پاکستان کے دور میں تھی، جیسے مشرف دور میں عدلیہ کی بحالی کے لئے تھی اور سول سوسائٹی آرگنائزیشن، بار کونسلز، پیشہ وارانہ انجمنیں، ڈاکٹر، منیجرز، تاجر، مزدور اور سماجی تنظیمیں ایک مشترکہ فورم تشکیل دیں اور اپنے آپ کو منظم کر کے اس طاقتور اشرافیہ سے ملک کو نجات دلائیں اور اپنے نمائندے اسمبلی میں بھیجنے کے لئے رائے عامہ ہموار کریں۔ نظریۂ پاکستان کے بغیر پاکستان کا خواب نامکمل ہے، کیونکہ نظریۂ پاکستان سے انحراف وجودِ پاکستان سے انکار کے مترادف ہے۔