رہنما چاہئے جیسنڈا آرڈرن جیسی

رہنما چاہئے جیسنڈا آرڈرن جیسی
رہنما چاہئے جیسنڈا آرڈرن جیسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نیو زی لینڈ اپنی آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے، لیکن وہ اپنی وزیراعظم کی وجہ سے دنیا کا ایک بڑا ملک بن کر ابھرا ہے۔ آبادی اور رقبہ کسی ملک کو بڑا نہیں بناتاہے۔ حکمرانوں ، سیاسی رہنماؤں ، ذرائع ابلاغ کے رویئے ملک کو بڑا بناتے ہیں۔ 15مارچ کو نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں حملہ کے نتیجے میں عبادت میں مصروف پچاس مسلمان جاں بحق ہو گئے تھے ۔

وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے برق رفتاری سے مساجد کا دورہ کیا، مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا، انہیں تسلی اور تشفی دی۔ اپنے ملک میں شہریوں کے پاس موجود فوجی طرز کے تمام اسلحہ پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور اپنے عوام کو اعتماد دینے کے لئے انہوں نے پارلیمنٹ کا اجلاس کیا جس کی ابتدا تلاوت کلام پاک سے کرائی گئی ۔

پاکستان کے مسلمان نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے اس اقدام پر شاداں ہیں۔ وزیراعظم کا رویہ صرف بھا نہیں گیا بلکہ دلوں میں گھر کر گیا۔ پاکستان کے مسلمان کیا، امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے معتبر اخبار نیو یارک ٹائمز کے ایڈیٹویل بورڈ نے مقالہ خصوصی میں لکھا ہے کتنا اچھا ہوتا کہ امریکہ کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسی رہنما حاصل ہوتی۔ وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کو یہ نیو یارک ٹائمز کا بڑا خراج تحسین ہے۔ دنیا بھر میں وہ اس کی مستحق بھی ہیں۔
نیوزی لینڈ ویسے بھی پاکستان کا قیام پاکستان کے بعد سے دوست ملک ہے۔ نیوزی لینڈ کے تعاون سے نئے ملک پاکستان میں حیدرآباد کی زیل پاک سیمنٹ فیکٹری کی بنیاد ڈالی گئی۔

نیوزی لینڈ کی اس وقت کی حکومت نے اس دور میں سیمنٹ فیکٹری قائم کرنے کے لئے امداد دی جب پاکستان میں ایک ہی سیمنٹ فیکٹری موجود تھی۔ زیل پاک میں ہزاروں افراد نے ملازمت کر کے اپنے اپنے خاندانوں کے لاکھوں افراد کو پالا۔ زیل پاک کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ لوگ وہاں ملازمت کرنے کے خواہش مند رہا کرتے تھے ۔

نیوزی لینڈ نے جب فیکٹری قائم کی تھی تو حکومت پاکستان کے ساتھ معاہدہ میں یہ پابندی عائد کی گئی تھی کہ زیل پاک کو ختم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی فروخت کیا جائے گا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب حکومت پر اکثر صنعتی ادارے نجی شعبہ کو فروخت کرنے کا خبط سوار ہوا تو زیل پاک کو بھی کوڑیوں کے مول فروخت کر دیا گیا۔ پاکستان کے ساتھ نیوزی لینڈ کے دیرینہ تعلق کے پیش نظر زیل پاک سیمنٹ فیکٹری کے قیام کا ذکر ضروری ہے۔
بات ہو رہی تھی وزیراعظم کی کہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر سرکاری ذرائع ابلاغ سے اذان نشر کرائی۔ نیوزی لینڈ میں مسلمان بہت چھوٹی سی اقلیت ہیں۔ وزیراعظم کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ اپنے ملک کی بہت ہی چھوٹی اقلیت کے ساتھ اس طرح اظہار یکجہتی کے اقدامات کر تیں۔ہمارے حکمرانوں ، اور سیاسی رہنماؤں اور ذرائع ابلاغ کی طرح ایک آدھ بیان سے بھی کام چلایا جاسکتا تھا۔ پاکستان میں تو اس طرح کے حادثات بار بار ہوتے رہے ہیں۔

ایک ایک حادثہ میں سینکڑوں افراد کی زندگیاں چھین لی گئیں۔ حادثہ کے بعد بس بیانات جاری کرنے پر اکتفا کیا گیا۔ مسلمان اور غیر مسلمان اور دیگر برادریاں دہشت گردی کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کبھی بھی یہ ضروری نہیں جانا کہ متاثرہ لوگوں میں اعتماد کس طرح پیدا کیا جائے۔

کبھی بھی متاثرہ خاندانوں کو یا ان کے نمائندوں کو پارلیمنٹ یا اسمبلیوں میں مدعو نہیں کیا گیا، اظہار یکجہتی کے لئے قوم کو کسی تقسیم اور تعصب ختم کرنے کے بغیر متحرک نہیں کیا گیا۔ بہت زیادہ ہوا تومعاوضوں کا اعلان کر دیا گیا جو بہت تاخیر سے ادا کئے گئے۔ انفرادی طور پر تو افراد اپنے اپنے قریبی برادریوں یا متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ ضرور کرتے ہیں، لیکن اجتماعی طور ایسے مظاہرے بہت کم دیکھنے میں آئے ہیں۔
یہ سب کچھ رویوں کی بات ہے۔

احساس کی بات ہے، دلوں میں گنجائش کی بات ہے۔ دکھاوے کے لئے آنسو بہا لینے اور آنسو پونچھ لینے سے مسلہ تو حل نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک کے بعد دوسرا واقعہ ہوتے رہے، پشاور میں اسکول کے طلباء کے قتل کرنے کا دل خراش واقعہ پیش آنے کے بعد فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی کوششوں سے نیشنل ایکشن پلانپارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا، لیکن حکومت سے یہ شکایت ہی رہی کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل در ٓمد نہیں ہو سکا۔ فوج کے موجودہ سربراہ نے صحافیوں، ٹی وی اینکر حضرات، کالم نویسوں کے ایک بڑے اجلاس میں گزشتہ سال اس بارے میں شکایت بھی کی تھی کہ عمل در آمد میں سستی سے کام لیا جا رہا ہے۔
سرکاری افسران ، ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والوں، سیاست دانوں مذہبی رہنماؤں کے رویوں میں کوشش کے باوجود تبدیلی مشکل ہے کیوں کہ رویوں کی بنیاد تو بچپن سے ڈالی جاتی ہے۔ عقیدوں کا احترام کرنا، عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا، مسجد، امام بار گاہ، مندر، کلیسا، گردوارہ، سب ہی اپنی اپنی جگہ باعث احترام ہیں۔

درگزر کرنا، برداشت کا مادہ پیدا کرنا، نظر انداز کرنا، بڑے اور کھلے دل کا مظاہرہ کرنا، رواداری کا مظاہرہ کرنا ، فوری رد عمل سے محفوظ رہنا، نعرے بازی پر عمل نہ کرنا، نظم و تنظیم کی اہمیت وغیرہ وغیرہ بار بار سکھانے اور توجہ دینے سے پیدا ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اکو ہی دیکھ لیں کہ بڑی عمر کے لوگ بھی کسی بھی معاملہ پر تصدیق کئے بغیرجس انداز میں رد عمل کا اظہار کرتے ہیں ، وہ افسوس ناک ہوتا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیمی اداروں میں طلباء کے ساتھ ان اور دیگر موضوعات پر گفتگو کا اہتمام کیوں نہیں کرتی ہیں۔ تعلیم یافتہ رضا کار افراد کی خدمات کیوں حاصل نہیں کی جاتیں کہ وہ وقتا ‘ فوقتا ‘ درس گاہوں کا دورہ کرکے طلباء سے گفتگو کیا کریں ، انہیں ان موضوعات پر سمجھایا کریں ۔ ایسا کر کے تو دیکھیں بہت زیادہ پانچ سال میں مثبت تبدیلی نظر آئے گی جس کے اثرات بھی محسوس کئے جائیں گے۔

ساتھ ہی ساتھ ترکی، انڈو نیشیا، ملائیشیا، عمان ، سعودی عرب اور بعض دیگر ملکوں کی طرح آئمہ کرام کے اپنی مرضی کے خطبوں پر پابندی عائد ہونا چاہئے ۔ محکمہ اوقاف ان خطبوں کا متن جاری کیا کرے ،تاکہ جمعہ کی نماز سے قبل وہ ہی خطبہ پڑھا جائے۔

اس تماش گاہ میں رویوں کے بنانے کے لئے بہت سارے اقدامات بہت ضروری ہیں ورنہ یہ قوم ایک بکھرے ہوئے خیالات رکھنے والے لوگوں کاایک ہجوم ہی رہے گی۔

مزید :

رائے -کالم -