تنخواہوں میں اضافہ…… پینشنرز کہاں جائیں؟

تنخواہوں میں اضافہ…… پینشنرز کہاں جائیں؟
تنخواہوں میں اضافہ…… پینشنرز کہاں جائیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گزشتہ کچھ روز سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافے کی پلاننگ کی خبریں گردش کر رہی ہیں، خود عوامی نمائندوں کی مراعات میں بھی چھ لاکھ کے لگ بھگ اضافہ سننے میں آیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد ہوتا بھی ہے یا نہیں اور کیا اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی سعی ہو گی بھی یا اس پر بھی حکومت یو ٹرن لے کر عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دے گی؟ایک طرف مہنگائی نے تو ویسے ہی عوام کی کمر توڑ رکھی ہے،دوسری طرف آٹے، گھی، چینی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ سفری اخراجات اور کرائیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس کے اثرات نے عام افراد کے علاوہ سرکاری ملازمین کو بھی متاثر کیا ہے، مگر سب سے بڑا ظلم جو غریب عوام پر کیا گیا ہے، وہ نا قابل معافی ہے،جو ادویات کی قیمتوں میں شدید اضافہ کر کے کیا گیا ہے،جس سے بزرگ افراد کو، جو معمولی پینشن وصول کرکے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں،شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مجھے ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سا سوال دکھائی دے رہا ہے کہ جب یہ جوان تھے، ان کے جسم میں طاقت تھی، ہمت تھی، قوت تھی، تب تو ان سے خوب کام لیا جاتا رہا اور بھاری ٹیکس بھی باقاعدگی سے ان کی تنخواہوں سے وصول کئے جاتے رہے،حالانکہ یہ وہ افراد ہیں، جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور سالمیت کے لئے اپنی جوانی، قوت، شباب اور جمال سب قربان کر دیئے۔

دن رات ایک کرکے وطن عزیز کے مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دیں،بدلے میں جب یہ ضعیفی و بزرگی کی حالت میں پہنچے اور جب ان کے جسم میں اتنی بھی طاقت نہیں کہ وہ آسانی سے گھر سے باہر قدم ہی رکھ سکیں، یہ بیچارے مجبوری اور لاچاری کی وجہ سے ادویات میں اس قدر اضافے پر مظلومیت کی تصویر بنے ارباب اختیار کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کیا ان کابھی کوئی پرسان حال ہے کہ نہیں؟ کیا ان کو علاج، ادویات، خوراک اور تحفظ کی ضرورت ہے یا نہیں؟ یہ اپنی حق حلال کی کمائی سے اپنی ادویات کے اخراجات تک پورے نہیں کر سکتے۔آنکھوں میں امید کے چراغ جلائے کسی روشنی کا انتظار کر رہے ہیں کہ شاید اچانک کسی روز افق پر چمکے گی اور ہر طرف روشنی کی کرنیں بکھر جائیں گی یا پھر اس کالی گھٹا کی مانند، جو سخت گرمی اور حبس میں پانی کی چند بوندیں لئے آسمان پر ظاہر ہوگی اور زمین کی پیاس ہمیشہ کے لئے بجھا دے گی۔ یہ سب امید باندھے اس کے برسنے کا انتظار کر رہے ہیں کہ کبھی تو کوئی ان قوم کے محسنوں کے دکھوں اور پریشانیوں کا مداوا کرے گا۔ کوئی تو ان کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھے گا۔


آج تک کسی نے ان بزرگوں کی حالت زار پر آواز بلند نہیں کی،اگر کبھی کی بھی ہے تو ایوان اقتدار تک نہیں پہنچی۔ کیا عزت و تکریم ان کا حق نہیں، کیا عزت کے ساتھ گھر بیٹھ کرمناسب پینشن وصول کرنا ان کا حق نہیں کہ جس سے یہ اپنی ضروریات بآسانی پوری کر سکیں۔ان خدمات کے عوض جو انہوں نے وطن کے لئے انجام دی ہیں، اس کے بدلے میں اس بڑھاپے میں ان کی ضروریات آسانی سے پوری ہو جائیں۔ہمارے پیارے نبیؐ نے فرمایا: ”جو کوئی میری امت کے بزرگوں کا خیال رکھے گا، اللہ اس کے بڑھاپے کے لئے مددگار پیدا فرما دے گا“…… خود اللہ رب العزت نے بھی والدین کے ساتھ عمدہ سلوک کا حکم صادر فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی نظر میں بزرگوں کی خدمت، قدر اور مدد کی خاص اہمیت ہے۔ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف اپنے والدین، بلکہ امت کے ہر بزرگ کے ساتھ خدمت اور احسان کا سلوک روا رکھیں،کیونکہ اس عمر میں خود ہم بھی داخل ہوں گے۔

اگر اللہ پاک نے ہمیں یہ وقت عطا کیا تو یاد رکھیں کہ ہم ”وہی کاٹیں گے جو بوئیں گے“۔اب سوال یہ ہے کہ ان کے سارے مسائل کا حل کیا ہے، کس کی ذمہ داری ہے، ان مسائل کو حل کرے؟ تو صاف ظاہر ہے کہ اس میں سب سے پہلی ذمہ داری تو حکومت وقت کی ہے کہ وہ اس طرح کا نظام وضع کرے کہ ان بزرگوں کو وسائل کی کمی اور مہنگائی کی وجہ سے اس طرح ذلیل و خوار نہ ہونا پڑے،اس کے ساتھ ساتھ ان کو دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جانی چاہئیں، جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بزرگوں کو مہیا کی جاتی ہیں۔کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ جو لوگ یورپ میں رہتے ہیں اور غیر مسلم ہیں، ہم مسلمانوں سے اسلامی اقدار پر عمل کرنے میں ہزار درجے بہتر ہیں، یہ اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہیں، ان سے جھوٹ نہیں بولتے، ان کا خیال رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، خاص طور پر اپنے بزرگوں اور محتاجوں کی اس قدر مدد کرتے ہیں کہ اگر آپ کو معلوم ہوجائے تو آپ کو لگے گا کہ یہ تو دنیا میں ہوتے ہوئے بھی جنت میں رہ رہے ہیں، اسی لئے اللہ نے ان کو دنیا کی ہر نعمت سے نواز رکھا ہے۔ بے موسمی پھل، قسم قسم کی سبزیاں اور نہ جانے کیا کیا، ان کے قدموں میں موجود ہے۔ ہر شے خالص اور غذائیت سے بھرپور،اور ہو بھی کیوں نہ، جو اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلا کرتے ہیں، اللہ پاک ان کے ساتھ بھی بھلا فرماتا ہے۔


برطانیہ میں بزرگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور کوئی بزرگ محتاج ہو اور چلنے پھرنے سے قاصر ہوجائے تو حکومت، یعنی لوکل کونسل ان کو الیکٹرک وہیل چیئر مفت فراہم کرتی ہے، ماہانہ پینشن ان کے اکاؤنٹ میں ہر ماہ آجاتی ہے، ان کو کسی لائن میں لگنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر وہ خود ڈرائیو کر سکیں تو ان کو مفت گاڑی فراہم کی جاتی ہے اور اگر وہ ڈرائیو نہ کر سکتے ہوں تو ان کو ڈرائیور رکھنے کے لئے رقم فراہم کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی خیال رکھنے والا موجود نہ ہوتو ان کو کیئر کی سہولت دی جاتی ہے،اگر کوئی گھر والوں میں سے کیئر کرنے کے لئے راضی ہو تو اس کو اس کام کی تنخواہ ادا کی جاتی ہے، 60 سال کے بعد سفر بالکل مفت ہے، ہسپتالوں میں علاج بالکل مفت، محتاجوں کے لئے پارکنگ کی خاص جگہ مختص ہے تاکہ ان کو کوئی مشکل نہ ہو۔ شاپنگ سینٹر یا کسی بھی عمارت میں بزرگوں اور محتاجوں کے لئے خاص داخلی راستے اور پارکنگ کی خاص جگہ موجود ہوتی ہے ا ور کوئی بھی بلڈنگ لفٹ کے بغیر پاس ہی نہیں کی جاتی، یعنی تعمیر کی اجازت نہیں دی جاتی، یہاں تک کہ ان کے لئے خاص ٹوائلٹس تعمیر کرنا بھی لازمی ہے،ان میں خاص الارم نصب کئے جاتے ہیں تاکہ وہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اس بٹن کو دبا کر مدد حاصل کرسکیں۔

یہ وہ سہولتیں ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں اپنے بزرگ اور محتاج شہریوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔اب اس کے برعکس پاکستانی حکومت اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ صفر جمع صفر ہے۔ ان میں سے ایک بھی سہولت محتاجوں اور بزرگوں کو فراہم نہیں کی جاتی۔ حال ہی میں شیخ رشید نے بزرگوں کے لئے ریل کے سفر کو مفت قرار دیا ہے جو ایک اچھا اقدام ہے، مگر اس سہولت کو بسوں اور دیگر سفری سہولتوں کے لئے بھی ہونا چاہیے،جبکہ پینشن لینے کی سہولت کو بینکوں کے علاوہ پوسٹ آفسوں میں بھی شروع کرنا چاہیے تاکہ بزرگ بینکوں کے علاوہ پوسٹ آفس سے بھی اپنی پینشن وصول کر سکیں اور لمبی لمبی قطاروں سے بچ سکیں یا پھر ان کے اکاؤنٹس میں رقم منتقل کر دی جائے تاکہ وہ کسی بھی کیش مشین سے اپنی سہولت کے مطابق رقم نکلوا سکیں …… تبدیلی سرکار اس کو کہتے ہیں تبدیلی، صرف باتوں سے تبدیلی نہیں آتی، آپ تو تھوک سے پکوڑے تلنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلند وبانگ دعوے،عملاً کچھ بھی نہیں۔ کسی طبقے کو تو محرومی سے نکالیں۔ ان بے چارے بزرگوں سے ہی شروع کر لیں، ان سے متعلقہ افراد کی ہی باز پرس کر لیں تو سمجھ لیا جائے گا کہ بالآخر تبدیلی شروع ہوگئی ہے۔صرف نواز شریف اور آصف علی زرداری کو جیل میں بند کرنے کے لئے لوگوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیا، جن کو آپ نے بعد میں چھوڑ دیا۔ اس شعبدے بازی کو چھوڑ کر عملی اقدامات کریں، مسائل کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔اس قوم نے آپ کو امید کی آخری کرن سمجھ کر ووٹ دیا ہے، اگر آپ بھی کچھ نہ کر سکے تو شاید کسی کے بس میں نہیں، پھر اس قوم کو کسی سیاسی مجدد کا انتظار رہے گا۔

مزید :

رائے -کالم -