پی ڈی ایم بچ گئی؟
پی ڈی ایم کا اتحاد بچ گیا، پی ڈی ایم بچ گئی۔ آصف زرداری کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اعلیٰ پائے کی سیاست کی بجائے کبھی کبھار سفلی سیاست پر اتر آتے ہیں اور ناراض پھوپھوؤں کی طرح طعنے مینے مارنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے کرائے کے جیالوں سے ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگوا کر دانت نکالتے نظر آتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ انہوں نے بلاول بھٹو کو بھی اپنی لائن پر لگا لیا ہے، وہ بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اپنی بات پر مر مٹنے کی بجائے آصف زرداری کی طرح پینترے بدلنے کے ماہر بنتے جا رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہر طعنے کا فوری جواب دینا بھی اپنا فرض اولیں سمجھتے ہیں، پہلے طلال چودھری پر ذاتی حملہ کردیا اور بعد میں مریم نواز کے پورے خاندان کو ایک ہی لڑی میں پرودیا اور آخر میں مولانا بیچ میں کود پڑے اور دونوں اطراف کی قیادت سے کہا کہ بچوں سے خاموش ہو جانے کو کہیں۔ سوال یہ ہے کہ مولانا پہلے ہی بیچ میں کیوں نہ پڑے اور 26مارچ کا لانگ مارچ کرکے سرخرو کیوں نہ ہوئے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا کوڑ پسارا رچایا ہی اس لئے گیا تھا کہ لانگ مارچ ملتوی کیا جا سکے، جمعیت علمائے اسلام کے فدائین سکون تسلی کے ساتھ ماہ صیام کا آرام و سکون انجوائے کریں، سحریاں کھائیں اور افطاریاں اڑائیں اور پھر عید کے پکوان کھا پی کر تازہ دم ہو جائیں اور لانگ مارچ کے لئے نکلیں۔ یادش بخیر جب 31دسمبر 2020ء تک مستعفی ہو کر پی ڈی ایم نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ جانا تھا تو بلاول بھٹو ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی ضد لے کر بیٹھ گئے تھے اور پی ڈی ایم کی قیادت نے بلاچوں و چراں استعفوں کے معاملے کو 31جنوری تک ٹال دیا تو راقم نے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زماں کائرہ سے دریافت کیا کہ پی ڈی ایم کی اس جگ ہنسائی کے ذمہ دار کون ہیں تو انہوں نے جواب میں بے تکی چڑھائی کردی کہ جگ ہنسائی کس بات کی؟آپ میڈیا والے تو چاہتے ہیں کہ ہر وقت تماشہ لگا رہے اور اپوزیشن فی الفور حکومت کو چلتا کرے۔ہم نے بصد احترام انہیں یاد دلوایا کہ مریم نواز تو 13دسمبر کے لاہور کے جلسے کو آر یا پار قرار دے رہی تھیں،جبکہ بلاول بھٹو ہاتھ لہر ا لہرا کر ایک جلسے میں بتارہے تھے کہ مجھ سے لکھوا لو، جنوری میں عمران خان کی حکومت نہیں ہو گی۔اس پر کائرہ صاحب کہنے لگے کہ کہیں ایک آدھ تقریر میں بلاول صاحب نے ایسی بات کہہ دی ہو گی۔ اسی طرح جب 26مارچ کے مجوزہ لانگ مارچ کی گھڑی آن پہنچی تو راقم نے کراچی سے پیپلز پارٹی کی سابقہ سینیٹر سحر کامران سے دریافت کیا کہ جس طرح بلاول بھٹو کے سندھ کے ٹرین مارچ کے دوران کارکنوں کو پیسے دے کر ریلوے اسٹیشنوں پر لانے کی خبریں شائع ہوئی تھیں کیا اسی طرح اس مرتبہ لانگ مارچ کے لئے بھی کارکنوں کو ایسی ہی آفریں کی جائیں گی تو وہ بھی ہتھے سے اکھڑ گئیں اور کہنے لگیں کہ آپ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی توہین کر رہے ہیں۔ ہم نے جواب میں عرض کیا کہ آپ ایسا سمجھتی ہیں تو معذرت خواہ ہیں، لیکن ہم تو وہ حقیقت بیان کر رہے ہیں جو ٹی وی اور اخبارات کی زینت بنی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم میں، جس ولن کا کردار ادا کیا ہے اس سے جہاں حکومت کو سکھ کا سانس نصیب ہوا ہے، وہیں خود پی ڈی ایم کو بھی منہ چھپانے کا موقع مل گیا ہے۔ اب دیکھئے عید کے بعد کیا ہوتا ہے، مولانا فضل الرحمن نے کب واضح کیا ہے کہ ان کی مراد چھوٹی عید ہے یا بڑی عید!
مولانا کچھ بھی کرلیں وہ کسی صورت مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کی جگہ نہیں لے سکتے، آخر میں پی ڈی ایم انہی دو جماعتوں کے بیچ بٹے گی، آدھے ادھر چلے جائیں گے اور آدھے اُدھر، یعنی جتنے بھی لبرل اور آزاد خیال لیڈر ہیں وہ پیپلز پارٹی کی قیادت میں متحد ہو جائیں گے۔ ان میں اختر مینگل، اسفند یار ولی، آفتاب شیر پاؤ وغیرہ شامل ہیں،جبکہ قدامت پسند لیڈر بشمول محمود خان اچکزئی، اویس نورانی، اور ڈاکٹر مالک وغیرہ نون لیگ کے ساتھ جا سکتے ہیں۔ مولانا البتہ ادھر جائیں گے اور نہ ادھر، بلکہ صراط مستقیم پر رہ سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہوگی کہ دو حصوں میں بٹ کر بھی یہ لوگ حکومت سے چھٹکارا پانے کی باتیں کر رہے ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کے حواری مل ملا کر مرکز میں کوئی چمتکار بھی دکھادیں، لیکن جہاں تک پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مل کر اس حکومت کو گرانے کی بات ہے تو ایں خیال است و محال است و جنوں است والی صورتِ حال ہی دکھائی دیتی ہے۔
آخر میں ایک اہم بُعد کی جانب اشارہ کرانا مقصود ہے کہ جس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ سے چیئرمین سینٹ کے انتخابات میں دھاندلی کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مشورہ دیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے مسائل پارلیمنٹ کے اندر ہی حل ہونے چاہئیں، وہ بظاہر ایک اصولی موقف دکھائی دیتا ہے کہ آرٹیکل 69کی موجودگی میں پارلیمنٹ کی آئینی خودمختاری کو کسی صورت چیلنج نہیں کیا جا سکتا، لیکن دوسری جانب جب سپریم کورٹ کے تین معزز جج صاحبان آئین کے آرٹیکل 226کی موجودگی میں بھی چیف الیکشن کمشنر پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ ووٹوں کو قابل شناخت بنائیں اور سپریم کورٹ کی اس رولنگ کو لے کر وزیر اعظم سے لے کر وزراء کی فوج ظفر موج الیکشن کمیشن آف پاکستان کی گت بنا رہی ہے!
ہم کہ دہلیز ہیں ملامت کی
ہم نہ اندر کے اور نہ باہر کے