گھبرائی ہوئی حکومت
پے در پے ایسے واقعات ہو رہے ہیں کہ حکومتی وزراء پھولے نہیں سما رہے پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ ہو یا مریم نواز کی نیب میں طلبی اور اس کے لئے لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت کرانا، وزراء کے لئے گویا آسمان سے چھپر پھاڑ کے ایسے مواقع نازل ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے وزراء چہک رہے ہیں، ٹھٹھہ مخول کر رہے ہیں کوئی کہہ رہا ہے اپوزیشن کی جوتیوں میں دال پٹ رہی ہے، کسی کو مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری میں جنگ چھڑتی دکھائی دے رہی ہے، کوئی مریم نواز پر تنقید کر رہا ہے کہ وہ تو کہتی تھیں کسی سے نہیں ڈرتیں پھر ضمانت کیوں کروائی،کوئی مولانا فضل الرحمن کی بے چارگی پر تبصرہ کر رہا ہے، کسی کو اس بات کی خوشی چڑھی ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کی اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین سینٹ کے خلاف درخواست ناقابل ِ سماعت قرار دے دی ہے۔ علیٰ ہذا لقیاس۔ وزراء کی اس وقت پانچوں گھی میں ہیں اور سر غرور و تکبر سے اکڑا ہوا ہے۔اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ان وزراء کا کیا صرف یہی کام ہے جو وہ کر رہے ہیں، یا ان کا کام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے محکموں کی خبر لیں، عوام کی بہتری کے لئے کوئی کام کریں، حکومت کے امیج کو بہتر بنائیں اور گڈ گورننس کی بنیاد رکھیں، مگر انہیں اس کام کی طرف کون راغب کرے۔ ان کے لئے تو یہی سب کچھ ہے کہ اپوزیشن پر تنقید کے نشتر برسائیں اور کپتان کی تعریفوں کے پل باندھیں، دوسرا تو کوئی کام انہیں ہے ہی نہیں، نہ ہی ان سے کوئی پوچھنے والا ہے۔
یہ پہلی حکومت دیکھی ہے جو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے اپوزیشن کو نیچا دکھانے پر تلی ہوئی ہے۔ حالانکہ اپوزیشن کو نیچا دکھانے سے عوام میں اس کی واہ واہ نہیں ہو جائے گی۔ عوام میں واہ واہ تو تب ہو گی جب ان کے مسائل حل ہوں گے جب انہیں روز مرہ مہنگائی سے نجات ملے گی، روز گار ملے گا یہ واحد حکومت ہے جو بارہ مہینے اپنے خلاف احتجاجی دھرنے اور مظاہرے کرانے میں خوشی محسوس کرتی ہے معاشرے کا ہر طبقہ اپنے حقوق کی خاطر احتجاج پر مجبور ہو گیا ہے اب بھی لاہور اور اسلام آباد میں دھرنے جاری ہیں، کئی کئی دن گزر جاتے ہیں کوئی ذمہ دار مظاہرین سے مذاکرات کے لئے نہیں پہنچتا۔ جب معاملہ حد سے بڑھ جاتا ہے یا مظاہرین وزیراعلیٰ، وزیراعظم ہاؤس کی طرف مارچ کرنے لگتے ہیں تو لاٹھی چارج ہوتا ہے یا پھر کوئی مذاکرات کے لئے پہنچ جاتا ہے، یہ مسائل پیدا کرنے والی حکومت ہے یا مسائل حل کرنے والی،ابھی یہ بھی علم نہیں ہو سکا جتنی توجہ حکومتی وراء اپوزیشن پر دیتے ہیں اور ہر گھنٹے بعد مائیک سامنے سجا کر اس کی خبر لیتے ہیں، اس سے تھوڑی سی کم توجہ بھی اگر وہ عوام کے مسائل پر دیں تو لوگ حکومت کے خلاف نعرے نہ لگائیں بلکہ اس کے حق میں تالیاں بجانے لگیں۔ کیا وزراء میں صرف توجہ دینے کا فقدان ہے یا وہ اتنی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ عوام کی امیدوں پر پورا اتر سکیں؟ مجھے تو دوسری بات درست لگتی ہے۔ وزیر کے پاس اگر کرنے کو کوئی کام ہو تو وہ اِدھر اُدھر کی خرافات میں پڑتا ہی نہیں، یہ تو بے کار وقت کی باتیں ہیں کہ آؤ پریس کانفرنس کریں اور اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔ یہ بھی اسی دور حکومت کی دین ہے کہ ہر وزیر حکومت کا ترجمان بنا ہوا ہے اس کا کسی بات سے تعلق ہے یا نہیں، وہ مائیک سنبھال کے کیمرے کی زد میں آئے گا اور حکومت کے وہ گن بھی گنوانا شروع کر دے گا، جو کبھی اس میں تھے ہی نہیں اور اپوزیشن پر ایسے تنقید کرے گا جیسے اسکے ہاتھ اپوزیشن کی کوئی بڑی برائی لگ گئی ہو۔
ان باتوں سے صاف لگتا ہے کہ حکومتی وزراء کے نزدیک کارکردگی جانچنے کا پیمانہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کیمرے کے سامنے رہ کر اور اخبارات کی زینت بن کر اپنے اپنے حاکمِ اعلیٰ کی نظروں میں رہا جائے پتہ نہیں یہ لوگ اپنے دفاتر میں بھی جاتے ہیں یا سارا کام سکریٹریوں پر چھوڑ رکھا ہے۔ کابینہ مل کر ایک حکومت بنتی ہے اور ہر وزیر اپنے محکمے کی کارکردگی سے حکومت کے لئے عوام کے دلوں میں جگہ بناتا ہے۔ آج اگر عوام کی نظر میں حکومت کی کارکردگی قابل رشک نہیں تو وزراء کے سوا اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے۔ اپوزیشن کے پاس تو وقت ہی وقت ہوتا ہے وہ اگر حکومت پر تنقید کرتی رہتی ہے تو اور اس کے سوا کیا کرے، مگر کیا وزراء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صبح و شام یہی دور بین لگائے بیٹھے رہیں کہ اپوزیشن کے کسی رہنما نے کیا کہا ہے اور اس کا جواب دینے کے لئے دوڑے دوڑے پی آئی ڈی میں آ جائیں مریم نواز کے ایک بیان پر حکومت کے وزراء با جماعت جواب دینے پہنچ جاتے ہیں۔ باقی وزرا اور ترجمانوں کے ٹویٹ اپنی جگہ آتے ہیں اس سے تو یہ بات درست ثابت ہوتی ہے کہ حکومت ایک نہتی لڑکی سے خوفزدہ ہے۔ فردوس عاشق اعوان جعلی راجکماری کی اصطلاح استعمال کر کے سمجھتی ہیں کہ انہوں نے مریم نواز سے بدلہ لے لیا ہے، حالانکہ ایسی باتوں سے کون متاثر ہوتا ہے، بلکہ اُلٹا ان کی وجہ سے حکومت کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اب کل سے یہ وزراء اس بات پر سارا زور صرف کر رہے ہیں کہ مریم نواز نے ہائیکورٹ سے ضمانت کیوں کروائی؟ انہیں ضمانت کرائے بغیر نیب میں پیش ہونا چاہئے تھا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ایسی کیا گستاخی کی ہے مریم نواز نے، عدالت سے رجوع کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ اب شیخ رشید احمد کی اس بات میں کتنا وزن ہے کہ مریم نواز نے خود تو ضمانت کرالی اور کارکنوں کو ریلی میں شامل ہونے کا کہہ رہی ہیں کیا کارکن بھی ضمانت کرائیں، کس جرم میں ضمانت کراتے اور ریلی میں جانا کون سی شق میں ضمانت کرانے کی شرط عائد کرتا ہے۔
پہلے بھی کئی بار انہی کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ پی ڈی ایم میں اصل جان خود حکومت نے ڈالی ہوئی ہے۔ ایک تو اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے اور دوسرا صبح و شام پی ڈی ایم کی گردان کر کے اسے ایک ایسا ہوّا بنا دیا ہے جو حکومت کے ہر وزیر و مشیر کے حواس پر سوار ہے۔ اب رات دن یہ کہنے کا کیا فائدہ ہے کہ پی ڈی ایم اپنی موت آپ مر گئی ہے ارے بھائی مر گئی ہے تو اس پر فاتحہ پڑھو اور اپنا کام کرو، عوام کو ریلیف دو، مری ہوئی پی ڈی ایم بھی اگر آسیب بن کر پیچھا کر رہی ہے تو پھر مان جاؤ کہ حکومت اپنے ہی بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور اسے ہر لمحہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ اپوزیشن کسی وقت بھی اسے دبوچ سکتی ہے۔ کپتان تو عوام کو کہتے تھے گھبرانا نہیں، جبکہ یہاں تو حکومت گھبرائی ہوئی ہے اور اس گھبراہٹ کا سب سے بڑا شکار وزراء ہیں۔