پاکستان تھیوکریسی کے لیے قائم نہیں کیا گیا تھا،ڈاکٹررضاکاظمی
کراچی(پ ر)قرار داد مقاصد اور پاکستان کی موجودہ صورت حال کے عنوان پر ہمدرد کارپوریٹ ہیڈ آفس میں شوری ہمدرد کراچی کا ماہانہ اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت اسپیکر شوری ہمدرد کراچی جسٹس ریٹائرڈ حاذق الخیری نے کی۔ اجلاس میں ممتاز مورخ اور نقاد ڈاکٹرمحمد رضا کاظمی کو بہ طور مہمان مقرر مدعو کیا گیا۔نیشنل صدر شوری ہمدرد سعدیہ راشد صاحبہ نے اجلاس میں خصوصی شرکت کی۔ ملک میں کوویڈ کی دوسری لہر کے پیش نظر، حکومتی ایس او پیز پر عملدرآمد کرتے ہوئے آن لائن اجلاس منعقد کیاگیا۔کموڈور(ر)سدید انور ملک نے کہا کہ ریاست پاکستان کا مطالبہ زمینی حقائق پر مبنی تھا۔ دو قومی نظریہ اسلام کی برصغیر میں آمد کے بعد سے ہر دور میں موجود رہا کیونکہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا الگ جداگانہ تشخص قائم ہوگیا تھا۔ آج کی نوجوان نسل میں تحریک پاکستان کے حوالے سے معلومات معدوم ہوگئی ہیں۔ انہیں باور کروانا ضروری ہے کہ کشمیر میں ہندوستان کا ظالمانہ رویہ ان میں نسلی برتری کے زعم کی علامت ہے۔ ظفر اقبال نے کہا کہ پاکستان کو بنانے کے ساتھ ہمارے اسلاف نے مملکت خداداد کی سماجی و اقتصادی ترقی کے اہداف مقرر کیے تھے، لیکن ہم انہیں حاصل کرنے سے قاصر رہے۔اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں کرپشن، اقربا پروری، لوٹ مار اور ظالمانہ رویے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ اسلام ریاکاری کا مذہب نہیں بلکہ عملی اقدامات پر مبنی عقیدہ ہے جس میں انسانوں اور سماج کی خدمت کو اولین حیثیت حاصل ہے۔پروفیسر محمد رفیع نے کہا کہ دو قومی نظریہ اپنی پوری حیثیت میں جب تک واضع نہیں ہوگا، ہماری نسلوں میں شک و ابہام رہیگا۔ دو قومی نظریے کا تعلق مذہبی اختلاف سے ہرگز نہیں کیونکہ قائد اعظم تو خود ہندو مسلم اتحاد کے نمائندہ تھے۔ اس وقت کا مذہبی طبقہ تحریک پاکستان کے خلاف تھا کیونکہ انہیں دو قومی نظریہ کا درست ادراک ہی نہیں ہوپایا۔ مسلمانوں کے مفادات یونائیٹڈ انڈیا میں محفوظ نہیں رہ سکتے تھے۔ آج وقت نے یہ ثابت بھی کردیا کہ جو پاکستان کے مخالف تھے وہ غلط تھے۔ پاکستان تھیوکریسی کے لیے قائم نہیں کیا گیا تھا۔مہمان مقرر ڈاکٹر محمد رضا کاظمی نے کہا کہ قرار داد مقاصد میں اللہ کی حاکمیت کا ذکر تھا ناکہ فرقہ پرستی کی اجازت دی گئی۔ کسی فرقے کو اپنے اعتقادات دوسروں پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ قرار داد مقاصد کے مطابق اقتدار منتخب نمائندوں کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ اقلیتوں کے حقوق تسلیم نہ کرنا خود غیر اسلامی اور خلاف شریع عمل ہے۔ قرارداد مقاصد نے نہ صرف اقلیتوں کو اپنے عقائد پر مکمل عمل داری کا اختیار دیا بلکہ انہیں اپنی ثقافت کی ترویج کی بھی اجازت حاصل تھی۔پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث نے کہا کہ ہمیں اپنے مسائل کا باہمی مشاورت سے تدارک کرنا چاہیے تاکہ لسانی و فقی اختلافات کا خاتمہ ہو۔ پاکستان کاقیام اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کیونکہ برصغیر میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب روا رکھا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے آج کے پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ وہی رویہ ہے جس کی مسلمان برصغیر میں شکایت کرتے تھے۔
