میلہ چراغاں 

 میلہ چراغاں 
 میلہ چراغاں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پنجابی کی ایک کہاوت ہے: سَت دن تے اَٹھ میلے کم کراں کیہٹرے ویلے؟ یعنی ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں اور میلے آٹھ دن لگتے ہیں‘ میں کام کس وقت کروں؟  یہ کہاوت لاہور کے بارے میں تھی جہاں میلوں کی روایت قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ کہاوت سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ میلے اتنے وافر تعداد میں ہوتے تھے کہ لوگ ہر دم ان میں مشغول نظر آتے۔ کوئی میلے سے آ رہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔ ان میلوں ٹھیلوں میں لاہور کی ثفافتی زندگی کا رنگ جھلکتا ہے اور لوگوں کے لئے خوشیاں منانے اور ملنے جلنے کا تو یہ موقع ہے ہی۔ لاہور میں اور بھی بہت سے میلے لگتے ہیں لیکن میلہ چراغاں کا اپنا ہی رنگ ہوتا ہے۔ لاہور کا یہ میلہ سب سے زیادہ مشہور بھی ہے۔ یہ میلہ مارچ کے آخری ہفتہ اور اتوار کو معروف پنجابی صوفی شاعر شاہ حسین کے مزار واقع باغ بان پورہ پر منایا جاتا ہے۔ عقیدت مند مزار پر چادریں اور پھول چڑھانے کے ساتھ چراغاں بھی کرتے ہیں‘ اسی لئے اسے میلہ چراغاں کہا جاتا ہے۔ لوگ دھمال اور دوسرے طریقوں سے بھی اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ میلہ شالامار باغ کے اندر لگتا تھا اور اسی نسبت سے میلہ شالامار بھی کہلاتا تھا بلکہ یہ بھی کہیں پڑھا تھا کہ تقسیم ہند سے قبل اس میلے میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ میلے کا پھیلاؤ دہلی دروازے سے لے کر شالامار باغ تک ہوا کرتا تھا۔ پھر معاشرے کی دوسری اقدار کی طرح یہ میلے ٹھیلے بھی سکڑتے سکڑتے محض مزاروں کے احاطوں اور ارد گرد تک محدود ہو گئے۔ بہرحال اب بھی صوفی بزرگ کے معتقدین کی ایک بڑی تعداد ہر سال میلے میں شرکت کرتی ہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ راجہ رنجیت سنگھ خود اپنے درباریوں کے ساتھ اس میلے میں شریک ہوتا تھا اور باغ بان پورہ میں شاہ حسین کے دربار پر گیارہ سو روپے اور ایک جوڑا بسنتی چادروں کا چڑہاوے کے طور پر دیا کرتا تھا۔ آج بھی پنجاب کے دیہات سے دیہاتیوں، ملنگوں اور دریشوں کی ٹولیاں ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالتی جلوس کی شکل میں آتی ہیں۔ 
آگے بڑھنے سے پہلے کچھ ذکر اس مشہور صوفی بزرگ کا جن کا نام تو شاہ حسین تھا لیکن وہ معروف مادھو لال حسین کے نام سے تھے۔ 1538ء میں اندرون لاہور پیدا ہونے والے مست الست صوفی شاعر شاہ حسین نے اپنی کافیوں کی بنیاد راگ راگنیوں پر رکھی۔ یہ اکبر بادشاہ کا زمانہ تھا اور پورا معاشرہ شدید قسم کی تبدیلیوں کی زد میں تھا‘ لیکن شاہ حسین اپنے حال میں مست لاہور میں پڑے رہے۔ یہیں اپنی ساری زندگی گزار دی۔آج بھی ان کا کلام ہر اس دل کی دھڑکن تیز کر دیتا ہے جو ذرا سا بھی حساس ہے۔ کون ہو گا جس نے حامد علی بیلا کی آواز میں ان کی یہ کافی نہ سن رکھی ہو۔
مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی
دھواں دُھکھے میرے مرشد والا جاں پھولاں تے لال نی
جنگل بیلے پھرے ڈھڈیندی اجے ناں پائیو لال نی
دکھاں دی روٹی سولاں دا سالن آہیں دا بالن بال نی
رانجھن رانجھن پھراں ڈھوڈیندی رانجھن میرے نال نی
کہے حسین فقیر نمانا شوہ ملے تے تھیواں نہال نی
یہ کافی شاہ حسین کے دل کا حال ہی تو ہے لیکن تصوف کی گہرائیوں تک پہنچنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے۔


میلے اب بھی لگتے ہیں لیکن ان کی تعداد اب خاصی کم ہو چکی ہے۔ لوگوں کے پاس انٹرٹینمنٹ کے اور بھی ذریعے آ گئے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جو مزا میلوں ٹھیلوں میں آتا تھا‘ وہ گھر میں بیٹھ کر ٹی دیکھنے کا نہیں آ سکتا۔ میلوں ٹھیلوں کی تعداد کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ ہر کوئی پیسہ کمانے کی دوڑ میں اس قدر مصروف ہے کہ اسے اپنا ہوش ہے اور نہ ارد گرد کا۔ پُرانا زمانہ اچھا تھا‘ جب زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ ہوتے تھے اور دولت کمانے کی دوڑ نہیں تھی۔ جس کے پاس جو تھا یا جس کو جو مل جاتا تھا‘ وہ اس میں خوش بلکہ مست تھا۔ تب لوگ باغوں کی سیر کرتے تھے‘ فلمیں دیکھتے تھے۔ تھیٹر کا پروگرام بنا لیتے تھے۔ کسی مشاعرے میں شرکت کر لیتے تھے اور اگر شہر میں کہیں سیاسی جلسہ ہے تو پیدل ہی اس طرف چل پڑتے تھے۔ کچھ بھی نہ بن پڑتا تھا تو دو چار یار دوست مل کر کہیں اپنی منڈلی جما لیتے تھے۔ وہ گپیں لگاتے تھے۔ قصہ گوئی ہوتی تھی۔ شاعری سنائی جاتی تھی اور سینما میں لگنے والی نئی فلموں کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اداکاراؤں کی اداؤں کا ذکر ایسی محفلوں میں بطورِ خاص ہوتا تھا۔ 


تب زمانہ بھی سستا تھا۔ تھوڑے سے پیسوں میں بہت کچھ مل جاتا تھا‘ لہٰذا لوگوں میں بہت زیادہ پیسہ کمانے کی ہوس بھی نہیں تھی۔ میں ان زمانوں کی بات کر رہا ہوں جب ایک من گندم نو روپے میں مل جاتی تھی‘ ایک کلو بلکہ اس زمانے میں تو سیر ہوتے تھے‘ ایک سیر آٹا ڈھائی آنے میں مل جاتا تھا۔ بلکہ میں آپ کے ساتھ ایک واٹس ایپ امیج شیئرکرتا ہوں جو ڈسٹرکٹ فوڈکنٹرولر ڈیرہ اسماعیل خان کا مرتب کردہ ہے۔ اس پر 15 مئی  1985کی تاریخ لکھی ہے۔ چائے کا کپ: ایک روپیہ‘ لسی کا گلاس: 2 روپے‘ مکس مٹھائی: 16 روپے کلو‘ جلانے کی لکڑی: 20  روپے کی 40 کلوگرام‘ مٹی کا تیل: 3.25 روپے فی لٹر‘  پکی ہوئی مچھلی: 29 روپے کلو‘ برف کا بلاک: 35 روپے‘ برف فی کلو: 50 پیسے‘ مشروبات (فانٹا‘ کوکا کولا وغیرہ): 2.75 روپے۔ کتنا سستا زمانہ تھا۔ کوئی بیس تیس روپے کی دیہاڑی بھی لگا لیتا تو سارا دن خوشی میں گزارتا اور گھر والوں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ لیتا جاتا۔ اب تو یہ حال ہے کہ ہزار روپے کا نوٹ ادھر تڑوائیں‘ ادھر خرچ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہ پیسے کی دوڑہے جس نے ہم سے میلے ٹھیلے اور انٹرٹینمنٹ کے دوسرے ذرائع بھی چھین لئے ہیں۔ ہم روزانہ ہزاروں کماتے ہیں لیکن ہر وقت فکر مند رہتے ہیں‘ ان کی نسبت جو روز کے تیس چالیس روپے کماتے تھے‘ لیکن خوش رہتے تھے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں پیسے کی دوڑ ہمیں کہاں لے جائے گی؟ اس کا کوئی آخری سرا بھی ہے یا نہیں؟   

مزید :

رائے -کالم -