100 سال تک مردہ رہ کر دوبارہ زندگی پانے والے حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ

100 سال تک مردہ رہ کر دوبارہ زندگی پانے والے حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ
100 سال تک مردہ رہ کر دوبارہ زندگی پانے والے حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ
سورس: Representational Image

  

یا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک شہر پر گزرا اور وہ (شہر) اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھا، کہا اسے اللہ مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ پھر اللہ نے اسے 100 برس تک مار ڈالا پھر اسے اٹھایا، کہا تو یہاں کتنی دیر رہا، کہا ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا، فرمایا بلکہ تو  100 برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں، اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ چاہا ہے، اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں، پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا میں یقین کرتا ہو ں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۃ البقرہ، 259)

 یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں ساری تورات زبانی یاد تھی۔ بخت نصر نے شام پر حملہ کر کے بیت المقدس کو ویران کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قید کر کے اپنے ہاں بابل لے گیا تو ان میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے۔ کچھ مدت بعد رہائی ہوئی اور واپس اپنے وطن آ رہے تھے کہ راہ میں ایک اجڑا ہوا شہر دیکھا جو بخت نصر کے حملہ کے نتیجہ میں ہی ویران ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر دل ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ اب اس بستی کو کب اور کیسے آباد کرے گا ؟ اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور خور و نوش کا سامان ساتھ تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اللہ نے آپ کی روح قبض کرلی۔ اور پورے سو سال موت کی نیند سلا کر پھر انہیں زندہ کر کے پوچھا : ’’بتلاؤ کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟‘‘ اب  حضرت عزیر علیہ السلام کے پاس ماسوائے سورج کے، وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا جب جا رہے تھے تو پہلا پہر تھا اور اب دوسرا پہر کہنے لگے ’’ یہی بس دن کا کچھ حصہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دوسرا دن ہو‘‘کیونکہ اس سے زیادہ انسان کبھی نہیں سوتا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دیکھو تم سو سال یہاں پڑے رہے ہو جب عزیر علیہ السلام نے اپنے بدن اور جسمانی حالت کی طرف اور اپنے سامان خور و نوش کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ وہی دن ہے جب ان پر نیند طاری ہوئی تھی۔ پھر جب اپنے گدھے کی طرف دیکھا کہ اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہوگئی ہیں تو سمجھے کہ واقعی سو سال گزر چکے ہوں گے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی، پھر وہ جڑنے لگیں۔ پھر ہڈیوں کے اس پنجر پر گوشت پوست چڑھا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہو کر کھڑا ہوگیا۔ پھر اس بستی کی طرف نظر دوڑائی جسے دیکھ کر ایسا خیال آیا تھا تو وہ بھی آباد ہوچکی تھی۔ حضرت عزیر علیہ السلام خود بھی، ان کا گدھا بھی اور وہ بستی بھی مرنے کے بعد زندہ ہوئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کے خیال کا 3 طریقوں سے جواب دیا۔ جس سے آپ کو عین الیقین حاصل ہوگیا۔

چنانچہ جب آپؑ واپس اپنے گھر پہنچے تو آپؑ کے بیٹے اور پوتے تو بوڑھے ہوچکے تھے اور آپؑ خود ان کی نسبت جوان تھے۔ اس طرح آپؑ کی ذات بھی تمام لوگوں کے لیے ایک معجزہ بن گئی۔ غالباً اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ انہیں ابن اللہ کہنے لگا تھا۔

مزید :

روشن کرنیں -