اے میرے رب، مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ حضرت ابراہیمؑ کی خواہش پر پیش آنے والا معجزہ

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ "اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا، فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے؟ کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے، فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑ پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلے پھر (انہیں ذبح کرنے کے بعد) ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس جلدی سے آئیں گے، اور جان لے کہ بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے"۔ (سورۃ البقرہ، 260)
اللہ تعالیٰ نے سورۃ التّکاثر میں انسانی علم کے3 مدارج ذکر فرمائے ہیں۔ علم، علم الیقین اور عین الیقین۔ عین الیقین ایسا علم ہے جو تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہوجائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو عین الیقین کے تناظر میں سمجھنا چاہیے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حیات بعد الممات کے بارے میں کبھی بھی تشکیک کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کے بارے میں دو ٹوک انداز میں الانعام 57میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے روز سے ہی رشد و ہدایت سے نوازا تھا۔ انبیاء کرامؑ نبوت سے پہلے بھی کفر اور شرک کا ارتکاب نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر نبی کو ابتداء ہی سے اپنی نگرانی میں رکھتے اور پالتے ہیں۔ یہاں عین الیقین کے درجے کو پانے کے لیے جناب ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے حضور سوال پیش کر رہے ہیں۔
رب حکیم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں کے الزام سے بچانے کے لیے ہی یہ سوال فرمایا کہ کیا ابراہیم (علیہ السلام) تم بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتے؟ ابراہیم (علیہ السلام) جواباً عرض کرتے ہیں کہ میرے رب کیوں نہیں ! میں تو اطمینان قلب کے لیے یہ درخواست کر رہا ہوں تاکہ قیامت کو اٹھنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میرے دل کا ایک ایک گوشہ اور ریشہ گواہی دے رہا ہو کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا اور اللہ کے حضور پیش ہونا یقینی ہے۔
حکم ہوا کہ ابراہیم چار پرندے پکڑ کر انہیں کچھ مدّت کے لیے اپنے ساتھ مانوس کرو۔ اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کے اعضاء مختلف پہاڑوں پر رکھ کر انہیں اپنی طرف آنے کے لیے آواز دو‘ آواز سنتے ہی وہ تمہاری طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر قادر ہے اور اس کے ہر کام اور حکم میں بہت سی حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔
پرندوں کو اپنے ساتھ مانوس کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ پرندے زندہ ہونے کے بعد ڈر کر ادھر ادھر نہ اڑ جائیں۔ اُڑ کر آنے کے بجائے چل کر آنے کی وضاحت فرمائی کہ بعد میں آنے والے قیامت کے منکر لوگ یہ نہ کہہ پائیں کہ ذبح ہونے والے پرندے زندہ نہیں ہوئے تھے بلکہ کوئی اور پرندے اتفاقاً اڑ کر موقع پر پہنچ گئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ پرندے اڑنے کے بجائے چل کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے جس سے ہر قسم کے شبہات کا ازالہ کردیا گیا۔
پرندوں کے اجزاء اس لیے مختلف چٹانوں پر بکھیر دیے گئے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آدمی جس حال میں مرے اللہ تعالیٰ اسے ہر صورت میں اپنے سامنے پیش کرے گا۔ مر کر اٹھنے کے عقیدے کو قرآن مجید اس طرح زور دار طریقے سے بیان کرتا ہے کہ اس کے بعد اس عقیدے کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔