وہ پاکستان میں جمہوریت اور عوام الناس کےلئے چلائی جانے والی ہر تحریک سے وابستہ رہیں ، رحجان کبھی بھی لیڈر شپ کی طرف نہیں ہوا 

وہ پاکستان میں جمہوریت اور عوام الناس کےلئے چلائی جانے والی ہر تحریک سے ...
وہ پاکستان میں جمہوریت اور عوام الناس کےلئے چلائی جانے والی ہر تحریک سے وابستہ رہیں ، رحجان کبھی بھی لیڈر شپ کی طرف نہیں ہوا 

  

 مصنف: زاہد مسعود

 قسط:6

نسرین انجم بھٹی بطور پنجابی شاعرہ 

نسرین انجم بھٹی 70 کی دہائی میں اردو اور پنجابی زبان کی شاعرہ کے طور پر سامنے آئیں۔ ان کا تعلق نجم حسین سیّد گروپ سے تھا اس گروپ میں بیشتر لوگ صرف پنجابی زبان میں اظہار کو فوقیت دیتے ہیں اور اُردو کو ایک غاصب زبان قرار دیتے ہیں مگر انگریزی میں اظہار خیال کو کافی اہم سمجھتے ہیں۔ مگر نسرین انجم بھٹی نے پنجابی کے ساتھ ساتھ اُردو زبان میں بھرپور اظہار کیا۔ پنجابی زبان کو بحیثیت مادری زبان کے اہمیت دینے کی حد تک وہ نجم حسین سیّد گروپ کے ساتھ وابستہ تھیں اور پنجابی زبان کے حوالے سے نجم حسین سیّد کے کام کو بہت زیادہ اہمیت دیتی تھیں اور ان سے متاثر بھی تھیں۔ ان کا پنجابی کے صوفی شعراءاور کلاسیکل شاعری کا مطالعہ ان کو ہمیشہ پنجابی زبان میں اظہار پر آمادہ کرتا رہا۔ وہ پنجابی فوک اور کلاسیکی شاعری کی ذہین طالبہ تھیں او ر انہوں نے اس میں عوام الناس کے ساتھ جڑت اور ان کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگی کو اپنے طریق اظہار میں بنیادی اہمیت دی۔ وہ یوں تو غزل اور آزاد نظم بھی کہنے پر قادر تھیں۔ کافی اور گیت بھی انکی پسندیدہ اصناف تھیں مگر انہوں نے اپنے نظریات و خیالات کے اظہار کے لیے نظم کو پسند کیا اور وقت کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے نثری نظم میں اپنا ماضی الضمیر بیان کرنے کو ہمیشہ فوقیت دی۔ 

پنجابی زبان میں شاعری کے لیے نسرین انجم بھٹی کا مزاج جو کہ نہایت درویشانہ اور صوفیانہ تھا اوران کے نظریات جو سراسر عوامی تھے کو بہت دخل تھا۔ انہوں نے عملی طور پر عام لوگوں سے اپنا رشتہ استوارکیا اور عام لوگ ہی ان کی شاعری کا اصل مخاطب تھے۔ انھوں نے ذاتی زندگی میں سادگی اور عوامی سٹائل کو اپنایا اور مڈل کلاس میں زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے لوئرمڈل کلاس اور عوام الناس کے طرزِزندگی کا بے حد قریب سے مطالعہ کیا اور خود کو ان کی نمائندگی کے لیے وقف کیا۔ وہ پاکستان میں جمہوریت اور عوام الناس کے لیے چلائی جانے والی ہر تحریک سے وابستہ رہیں اور ان کا رحجان کبھی بھی لیڈر شپ کی طرف نہیں ہوا بلکہ وہ ایک عام ورکر رہ کر انہیں پسند کرتی تھیں۔ خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں بھی وہ صرف ایک سوچ رکھنے والی خاتون دانشور کے طور پر ہی جانی جاتی ہیں جبکہ ان کے عہد کی ان سے کم تر کئی شاعرات خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں بحیثیت لیڈر اپنا مقام بنانے کے لیے سربستہ رہیں مگر نسرین انجم بھٹی نے کبھی کسی نام مقام و عہدہ کی خواہش نہ کی۔ 

نسرین انجم بھٹی کے 2 شعری مجموعے ان کی زندگی میں ہی شائع ہوئے۔ ”نیل کرائیاں نیلکاں“ ان کی نظموں کی پہلی کتاب تھی جس کی اشاعت کو اچھا زمانہ دستیاب ہوا۔ وہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں سامنے آئی۔ اس سے قبل بھٹو کی پھانسی پر نسرین کی نظم جسے شروع شروع میں نسرین نے اپنی ریڈیو کی نوکری کی وجہ سے شائد اون نہ کیا تھا مگر سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ نظم ”میں مرزا ساغر سندھ دا‘ میری راول جنج چڑھی“ نسرین انجم بھٹی کی تخلیق ہے کیونکہ نظم کا کرافٹ اور contact دونوں نے اسے عوام کے دلوں کی آواز بنا دیا تھا اور لوگ نسرین انجم بھٹی کی ایک ترقی پسند اور محب الوطن شاعرہ کی حیثیت سے بے پناہ عزت کرنے لگے تھے۔ ”نیل کرائیاں نیلکاں“ جب شائع ہوئی تو اس میں اگرچہ نسرین نے اپنی شاعری کا ایک کڑا انتخاب پیش کیا تھا مگر وہ ساری شاعری ایک مزاحمتی روئیے کی ترجمان ثابت ہوئی اور اس کتاب نے اپنی زبان اور حیثیت کے اعتبار سے پنجابی کے دانشور حلقوں اور عوام میں برابر کی پذیرائی حاصل کی۔ نسرین شاہ حسین لاہوری کو بہت پسند کرتی تھیں اور شاہ حسین کا انداز بھی ان کی شاعری کی ایک اہم ترغیب تھی چونکہ شاہ حسین بھی عوامی شاعر تھے لہٰذا ان کا اسلوب ”نیل کرائیاں نیلکاں“ میں نسرین کی آواز بن گیا اور چونکہ تمام میٹافر اور contact عوام سے متعلق تھا لہٰذا ”نیل کرائیاں نیلکاں“ اپنے عہد کے اظہار کے حوالے سے بہت نمایاں حیثیت اختیار کر گئی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھی عوامی خدمات کے اظہار کے لیے میں ”نیل کرائیاں نیلکاں“ ایک ریفرنس کا کا درجہ اختیار کر گئی۔ ( جاری ہے )

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -