جب مذہب پرستی اور شکوک پسندی کے اِختلافات کے باعث اِنتخاب کا رجحان پیداہو ا
مصنف:لطیف جاوید
قسط:26
انتخابیت (Electism)
پھرانتخابیت کانظریہ پروان چڑھتا ہے۔ مذہب پرستی اور شکوک پسندی کے اِختلافات کے باعث نظریات میں اِنتخاب کا رجحان پیداہو ا۔چنانچہ لکھتے ہیں۔
”مذاہب کے فلسفہ پر ارتیابیت کے حملوں سے مفکرین میں یہ رجحان پیداہوا کہ سابق فلاسفہ کی تعلیمات کے ان حصّوں کو نظرانداز کر دیا جائے جو مختلف فیہ ہیں یا اعتراضات کا ہدف بنی ہوئی ہیں اور ان میں سے ایسی چیزوں کو اکٹھا کر لیا جائے جو مفید اور سب کے لئے قابلِ قبول ہوں۔علاوہ ازیں جب 146 ق م میں یونان سلطنتِ روما کا ایک صوبہ بن گیا۔ اوریونان اور روما کے درمیان علمی ارتباط پیدا ہوا تو رومیوں کو بھی فلسفے کا شوق پیدا ہوالیکن ان میں فلسفے کے لئے ذہانت مفقود تھی ،اِس لئے انہوں نے کوئی نیا نظام پیش نہیں کیا۔وہ محض انتخابی تھے ،مختلف نظاموں سے اپنی پسندیدہ اشیاءکو منتخب کرکے جمع کرتے تھے۔انتخابیت کا یہ نظام اپیکورس سکول کے سوا تمام سکولوں میں پیدا ہو گیااور سابق فلسفہ کے افکار میں سے انتخاب کیا جانے لگا۔“
آخر فائلو یہودی (Philo the Jew )اور اسکندرفرودیسی (Alexander Aphrodite )نے عقل و دانش کی برتری کو مکمل طور پر پامال کر دیا۔
اسکندرفرودیسی ایتھنز میں ایک سکول چلاتا تھا۔اس نے افلاطون کی کتب میں ردوبدل کیا اور اِنہیں مشرف بہ مذہب کر دیا۔ اس کے بقول فیثاغورث ، افلاطون اور ارسطو بھی حضرت موسیٰؑ پاک کے پیروکار تھے۔ بقول انکے اِن فلاسفہ نے حضرت موسیٰؑ اور دیگر انبیاءکی صداقت کو ثابت کیا ہے۔ اِ ن لوگوں نے یہودی دینیات او ر یونانی فلسفہ کا ایک مرکب بنا کر پیش کیا یعنی افلاطون اور ارسطو کے نظریات پر مذہبی رنگ چڑھا یا۔اِس طرح اِنہوں نے مذہب کو فلسفہ پر برتری دیدی اور یوں لوگوں سے فلسفہ کی حقیقی روح عنقا ہو گئی۔
نو فلاطونیت (Neoplatonism)
نو فلاطونیت کا آغاز دوسری صدی عیسوی میں ہوتا ہے اور اِس کا خاتمہ پرہ کلس بازطینی کی ذات پر 485ءمیں ہو جاتا ہے ۔ یہ رواقیت ،اپیکوریت اور شکوکیت سے کم و بیش3 صدیاں بعد وجود میں آتی ہے۔ یونانی فلسفہ کی تباہی تومذکورہ بالا نظریات نے مچا ہی دی تھی۔ لیکن جو کسر رہ گئی تھی وہ نو فلاطونیت نے پوری کردی ۔
اِس کے اہم نکات ملاحظہ ہوں۔
۰ نو فلاطونیت سے پہلے اٹھنے والی2تحریکوں کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے اِسے ہوا دی۔ وہ ہیں فائلو یہودی اور اسکندر فردویسی کی تحریکات جنہوں نے افلاطون اور ارسطو کے فلسفہ کو مذہب کے تابع اور مومن بنا کر پیش کیا تھا۔اِن کا ذکرپہلے ہو چکا ہے۔
۰ اِس تحریک کو نو فلاطونیت کا نام دیکریہ تاثر دیا گیا کہ اِس میں افلاطون کے فلسفے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ سراسر تاریخی غلطی ہے۔افلا طون کے مضامین فلسفہ ،ریاضی ، فلکیات، فزکس ، سیاست ، منطق ،علم ،انسانیات ، اخلا قیات وغیرہ وغیرہ تھے جبکہ نو فلاطونیت میں اِن مضامین کا ذرا سابھی ذکر نہیں۔سو اِسے افلاطون کی طرف منسوب کرناسراسر زیادتی ہے۔
۰ میرے نزدیک اِس تحریک کو فلسفیانہ تحریک کہنا بھی سراسر ظلم ہے۔فلسفیانہ سوچ عقل و حکمت کو بنیادی حیثیت دیتی ہے جبکہ اِس تحریک میں وحی ،وجد ،حال اور کیف کو عقل پر برتری دی گئی ہے۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔