کھیل کے دیوانے شہد کی مکھیوں کی طرح سارا دن ریڈیوکے ارد گرد منڈلایا کرتے تھے، ٹیلی وژن اور ٹیپ ریکارڈر نئے "رقیب " ثابت ہوئے

کھیل کے دیوانے شہد کی مکھیوں کی طرح سارا دن ریڈیوکے ارد گرد منڈلایا کرتے تھے، ...
کھیل کے دیوانے شہد کی مکھیوں کی طرح سارا دن ریڈیوکے ارد گرد منڈلایا کرتے تھے، ٹیلی وژن اور ٹیپ ریکارڈر نئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:57
کمرشل سروس ابتدائی دورمیں صرف 1گھنٹے کی نشریات سے شروع ہوئی تھی۔ بعد ازاںاس کی غیر معمولی مقبولیت اور ریڈیو کی آمدنی میں اضافے کی خاطر کھینچ تان کر اِس کا دورانیہ 3 گھنٹے تک بڑھا دیا گیا اور یوں یہ پروگرام روزانہ 12بجے سے 3 بجے تک نشر ہونے لگا ۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی میں موجود ملک کے بہت بڑے گلوکار احمد رشدی نے بچوں کے پروگرام کے لیے اپنا ایک مقبول گانا گایا، جس کے بول کچھ یوں تھے :
بندر روڈ سے کیماڑی 
میری چلی رے گھوڑا گاڑی 
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
اِس گانے کے ایک بند میں ریڈیو پاکستان کا ذکر ہوا اور خوب ہوا۔ وہ کچھ یوں تھا : 
یہ آیا ریڈیو پاکستان 
ہے گویا خبروں کی دکان 
تو اس کے گنبد کو پہچان 
کہیں مسجد کا ہو نہ گمان 
کہ یہاں ہوتا ہے درس قرآن 
کبھی گمشدگی کا اعلان 
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر 
یہ گانا ہر بچے بڑے کی زبان پر چڑھ گیا اورجو بندر روڈ کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں رکھتا تھا تو وہ بھی یہ گانا سن کر اس کے بارے میں بڑا کچھ جان جاتا تھا ۔
سن 50 کی دہائی میں پہلے بیٹری والے ریڈیو آئے جس کے ساتھ کار کی بیٹری لگتی تھی ۔ اس کے لیے کمرے میں بند ہو کر بیٹھناضروری نہیں رہا تھا ۔باہر باغیچے میں بھی ریڈیو اور بیٹری رکھ کر اسے سکون سے سنا جا سکتا تھا ۔لیکن ابھی یہ کراچی میں اتنا کامیاب نہیں ہوا تھا کیونکہ شہری زندگی میں کھلی فضاءذرا کم کم ہی ملتی تھی۔ریڈیو حسب سابق بند کمروں یا برآمدے میں بیٹھ کر ہی سنا جاتا تھا ۔ شام کو صحن میں پانی چھڑک کر لمبی تار کے ذریعے ریڈیو کو چلا لیا جاتا اور یوں بستر میں لیٹ کر بھی اس سے لطف اندوز ہوا جا سکتا تھا۔
اس کے فوراً بعد ہی ٹرانسسٹر ریڈیو بازار میں متعارف ہوگیا ، جس کو سنبھالنا اور ادھر اُدھر لے جانا بہت آسان تھا ۔ اس کی آمد سے زندگی بڑی سہل ہو گئی۔ اب بھیڑ بکریوں کے پیچھے چلتا ہوا چرواہا بھی اس میں بجتے ہوئے گانوں میں مگن رہتا تھا۔
 صرف میڈیم ویو اور شارٹ ویو کے اسٹیشن ہی چلتے تھے ۔ تب ہی ریڈیو کی نشریات کے مقررہ اوقات بڑھا دیئے گئے اور جلد ہی یہ دورانیہ 24 گھنٹے پر محیط ہو گیا، جس میں تفریح کاعنصر بتدریج بڑھتا چلا گیا ۔ پروگراموں کو بہت خوب صورتی سے ترتیب دیا جانے لگا۔ صبح کے پروگرام عموماً خواتین کی دلچسپی کے ہوتے تھے تو دوپہر کو فلمی نغمے اور کمرشل سروس ، اور پھر رات کو حسب سابق اسٹوڈیو نمبر9 کے ڈرامے یا گیتوں بھری کہانی ہوا کرتی تھی ۔ کچھ اور بھی ہلکے پھلکے پروگرام اس دوران چلتے رہتے تھے۔
جن دنوں کرکٹ کے میچ چلا کرتے تھے تو یہ ریڈیو والے بھی سب کام کاج چھوڑ کر اس کے پیچھے لگ جاتے ۔ پانچ پانچ دن کے کئی ٹیسٹ میچوں کی سیریز ہوا کرتی تھی ، جو شروع ہوتی تو ختم ہونے ہی میں نہ آتی تھی۔ صبح 10بجے میچ کے شروع ہوتے ہی عمر قریشی اور جمشید مارکرمائیکروفون تھام لیتے اور شام5 بجے تک ان کا چیخ چیخ کر گلا بیٹھ جاتا اور سننے والوں کے کان پک جاتے تھے ۔ اس دوران ریڈیو صرف کھانے اور چائے کے وقفے کے لیے ہی فارغ ہوتا تھا۔ اس مختصرسے وقفے کا فائدہ اٹھا کر ریڈیو والے اسے انتہائی چابک دستی سے کچھ اہم خبریں ، ایک دو نغمے اور کمرشل سروس کے اشتہار سنانے کے لیے استعمال کر لیتے اور پھر دوبارہ شروع ہو جاتے تھے ۔ جن لوگوں کے نزدیک کرکٹ ایک ناپسندیدہ کھیل تھا ، وہ اس عذاب سے بچنے کے لیے دن کے وقت ریڈیو سے منہ موڑ لیتے تھے اور اپنی تفریح طبع کے لیے کوئی دوسرے مشغلے ڈھونڈ لیتے۔مگر کھیل کے دیوانے تو شہد کی مکھیوں کی طرح سارا دن ریڈیوکے ارد گرد ہی منڈلایا کرتے تھے ۔
 بڑا ہی خوبصورت کلچر تھا یہ بھی کہ گھر کے تمام افراد ایک جگہ بیٹھ کر ریڈیو پروگراموں سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گلی گلی سنا جانے والا ریڈیو اپنے نئے آنے والے رقیبوں یعنی ٹیلی وژن اور ٹیپ ریکارڈر کے بیچ کہیں گم ہو گیا ، یا پھر گھروں اور گاڑیوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ۔ 
 ( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -