ہم سب کالے سفید فام امریکہ کے سماجی نظام کا شکار تھے اور لاشعوری طور پر تحفظ، دوستی اور سکون کے لیے ایک دوسرے سے وابستہ تھے

مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط :34
کاش آپ نے ان دنوں اسے دیکھا ہوتا وہ ایک معزز شخص کی طرح مینیو پڑھتا اور آرڈر دیتا اور جب باورچی کو پتہ چلا کہ کھانا فیوکلاتھس کے لیے جانا ہے تو اس کے لیے خصوصی بہترین کھانا مہیا کیا جاتا اور میں اسے ایسے سرو کرتا جیسے وہ ایک کروڑ پتی ہے۔ ہم سب کالے سفید فام امریکہ کے سماجی نظام کا شکار تھے اور لاشعوری طور پر تحفظ دوستی اور سکون کے لیے ایک دوسرے سے وابستہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نوجوان بھیڑیے جو اپنا شکار مار سکتے تھے ایک بوڑھے اور معذور بھیڑیے کے کھانے کا خیال بھی رکھتے تھے۔
اسی طرح جمپ سٹیڈی نامی ایک چور تھا جو باقاعدگی سے سمالز میں آتا تھا۔ اس سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ زندگی ماضی یا مستقبل کا نام نہیں بلکہ حال میں زندہ رہنے کا نام ہے اسے "Jump Steady" اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ گوروں کے رہائشی علاقے میں چھتیں پھلانگتا پاﺅں کے انگوٹھوں سے بالائی منزلوں کی کھڑکیوں اور منڈیروں پر رینگتا ان کے کمروں میں داخل ہو جاتا۔ اگر وہ ایک بار بھی پھسل جاتا تو موقع پر مارا جاتا۔ وہ اتنا ماہر تھا کہ جب وہ ایک کمرے میں چوری کر رہا ہوتا تو ساتھ والے کمرے میں موجود لوگوں کو خبر بھی نہ ہوتی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایسے موقع پر اپنے آپ کو چست رکھنے کے لیے نشہ استعمال کرتا تھا اس نے مجھے کچھ ایسے گر سکھائے جو بعد کے سالوں میں جب میں نے اپنا چوری کا گروہ بنایا تو میرے بہت کام آئے۔
ایک بات پہ میں زور دوں گا کہ مندرجہ بالا گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ مت کیجیے گا کہ”سمالز“ مجرموں کا گڑھ تھا۔ اچکوں کا ذرا زیادہ ذکر صرف اس لیے ہوگیا کیونکہ میں خود ان سے بہت متاثر تھا ورنہ غالباً”سمالز“ واحد جگہ تھی جسے نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ گوروں کے لیے محفوظ قرار دیتا تھا۔
ریل روڈ چھوڑنے کے بعد میں نے اپنا پہلا کمرہ800 بلاک سینٹ نکولس ایوینیو میںلیا۔ یہ بہت سے کمروں پر مشتمل بڑی عمارت تھی جس کے کمروں سے آپ کوفرکوٹ، قیمتی کیمرے، عمدہ خوشبوجات سے لے کر عورت اور مہنگی کار تک سب کچھ مل جاتا تھا یعنی کہ گرم برف(Hot Ice) بھی۔ اس عمارت میں مرد کرایہ دار بہت کم تھے زیادہ عورتیں تھیں جو عصمت فروشی کرتی تھیں جبکہ مرد اقلیت اچکوں منشیات فروشوں اور جواریوں پر مشتمل تھی اور میرے خیال میں اس عمارت کا ہر مکین کسی نہ کسی نشہ کا استعمال ضرور کرتا تھا اور یہ صرف اس عمارت کی بات ہی نہیں تھی ہارلم کا ہر باسی زندہ رہنے اور زندگی کی جنگ لڑتے رہنے کے لیے کسی نہ کسی نشے کے استعمال پر مجبور تھا۔
اس عمارت میں رہ کر میں نے عورتوں کے متعلق بہت کچھ سیکھا۔ ان پیشہ ور طوائفوں نے مجھے وہ باتیں سکھائیں جن کا ہر بیوی اور شوہر کو ضرور علم ہونا چاہیے۔ بعد کی زندگی میں طوائفوں سے زیادہ”شریف عورتوں“ نے مجھے گمراہ کیا۔ طوائفوں کے مابین بہرحال ایک ضابطۂ اخلاق اور بہناپا ہوتا ہے۔ لیکن بہت سی ”پارسا“ عورتیں ان طوائفوں سے بھی بدتر نکلیں۔ جتنے مرد یہ طوائفیں پیسے لیکر بھگتاتیں اس سے کئی زیادہ شریف عورتیں بغیر پیسوں کے بھگتالیتی تھیں میں کالی اور گوری دونوں عورتوں کی بات کر رہا ہوں۔ ان عورتوں کے شوہرسمندر پار جنگ لڑ رہے تھے اور ادھر یہ اپنے شوہروں کی خون پسینے کی کمائی بھی ان پر لٹا رہی تھیں اور یہی نہیں بہت سی عورتیں جوکہ بظاہر مائیں اور بیویاں تھیں کہیں زیادہ بدتر طوائفی میں مصروف تھیں اپنے شوہروں اور بچوں کے نیویارک میں ہوتے ہوئے بھی۔
گوروں کی انڈر ورلڈ اخلاقیات کے بارے میں میرا پہلا سکول گوری عورتیں تھیں۔ جوں جوں میں اس گناہ کی زندگی میں اترتا گیا توں توں میں گوروں کے اخلاقی حالت سے زیادہ آگاہ ہوتا گیا بلکہ بعد میں تو میں گوروں کی ”ضرورتیں“ پوری کرکے بھی اپنی گزر اوقات کرتا رہا۔
میں نوجوان تھا بار میں ملازم تھا اور مجھے ان عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور غالباً وہ بھی مجھے چھوٹے بھائیوں کے جیسا سمجھتی تھیں۔ کبھی کبھار جب وہ فارغ ہوتیں تو میرے کمرے میں آ جاتیں نشے والے سگریٹزReefer پیش کرتیں اور مجھ سے باتیں کرتیں ایسا عام طور پر صبح کی بھیڑ کے بعد ہوتا۔
رات کے وقت تو گورے اور کالے گاہکوں کی بھیڑ معمول کا حصہ تھی لیکن جس بھیڑ سے مجھے حیرانی ہوتی وہ صبح 6 بجے سے 7:30 بجے تک گاہکوں کا ہلہ ہوتا اور پھر تقریباً9 بجے تک میں گھر میں بالکل اکیلا رہ جاتا۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔