مالی سال 18-2017 ء کے بجٹ تقریر کا دوسرا حصہ
انفارمیشن ٹیکنالوجی
زرعی اور صنعتی انقلاب کے بعد دنیا اب Informationکے انقلاب سے گزر رہی ہے ،تقریباً ہر شعبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہاہے ،خواہ وہ شعبہ موصلات ،بنکنگ ،تجارت ،تعلیم ،تفریح ،e-commerce ،حکومت یا انتظامیہ کا ہو،جس طرح مشینوں نے انسان کی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ اور آسانی پیدا کی اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی انسان کی ذہنی قابلیت میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے ۔
نئی قائم ہونے والی IT Companiesکو پہلے تین سال انکم ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی ،اسلام آباد اور دیگر علاقہ جات سے IT Servicesکی برآمد پر سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا ،آئی ٹی کمپنیوں ،ہاﺅسز کو اس شرط پر پاکستان میں Foreign Exchange Accounts کھولنے کی اجازت دی جائے گی کہ اپنی آمدن کو بذریعہ ترسیلات ان کھاتوں میں جمع کروا سکیں ،یہ اکاﺅنٹ بیرون ملک کاروباری ادائیگیوں کیلئے استعمال ہوں گے ۔
IT Connectivityمیں موبائل فونز ایک اہم جزو ہیں ،عام آدمی سہولت کیلئے موبائل کال پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو 14فیصد سے کم کر کے 12.5فیصد اور ایکسائز ڈیوٹی کو 18.5فیصد سے کم کر کے 17فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ،ہمیں امید ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی اسی شرح سے موبائل کالز پر سیلز ٹیکس میں کمی کریں گی ۔جدید سمارٹ فونز کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے کسٹم ڈیوٹی کو 1000روپے سے کم کر کے 650روپے کیا جائے گا ،موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی درآمد پر ڈیوٹی کم کی جارہی ہے ۔
ہیومن ڈویلپمنٹ
ویژن 2025 ءمیں یو این ڈویلپمنٹ کو مرکزی حیثیت حاص لہے۔ حکومت اس میں سرمایہ کاری کو اجری رکھے گی اور اس کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں پچھلے سال کے ساڑھے اکیس ارب روپے کے مقابلے میں 35.7 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ترقیاتی پروگرام کے علاوہ ایچ ای سی کو جاری اخراجات کی مد میں 60.2 ارب روپے دئیے جائیں گے۔ صحت کے شعبہ میں وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کو آرڈنیشن کا بجٹ 25 ارب سے بڑھاکر 49 ارب کیا جا رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جاری سال کے مقابلے میں اگلے سال سرمایہ کاری کو دو گنا کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے مطابق 80 ارب روپے لاگت سے ہسپتالوں کیلئے ایک نیا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ پہلے سال میں اس مد میں 8 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ وزیراعظم نیشنل ہیلتھ پروگرام کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو رہا ہے جس کیلئے 10 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں شعبہ صحت کے متعدد پروگراموں میں بشمول ای پی آئی، فیملی پلاننگ، پرائمری ہیلتھ کیئر اور پاپولیشن ویلفیئر پروگرام میں سرمایہ کاری کا حجم پچھلے سال کے مقابلے میں بڑھایا جا رہا ہے۔ دو تہائی بیماریاں پینے کے خراب پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پینے کا صاف پانی صحت عامہ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں سپیشل پروگرام ”کلین واٹر ڈرنکنگ فار آل“ شروع کیا جا رہا ہے جس کیلئے اگلے سال ساڑھے بارہ ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں اور اس کے علاوہ وزیراعظم کے پروگرام کیلئے 30 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔
پولٹری
اسحاق ڈار کا کہناتھا کہ پولٹری فارم سیکٹر نہ صرف ملک کے درمیانی آمدنی والے طبقے کو سستا چکن فراہم کر رہاہے بلکہ یہ شعبہ ملکی صنعت میں بھی اہم کر دار ادا کر رہاہے ،اس شعبے کو مزید ریلیف دینے کیلئے تجویز ہے کہ چکن کے Grand parent اور Parent stock کی امپورٹ پر عائد 5فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی جائے ،اور کسٹمز ڈیوٹی کو 11فیصد سے کم کر کے تین فیصد کر دیا جائے ،اس کے علاوہ تجویز ہے کہ Hatching Eggs پر عائد کسٹم ڈیوٹی کو 11فیصد سے کم کر کے 3فیصد کر دیا جائے ،اس عمل سے اس کاروبار کے انپٹس کی لاگت کو کم کرنے اور اس شعبے کو مزید ترقی اور فروغ دینے میں مدد ملے گی ۔
گوادر کی ترقی
جناب سپیکر گوادر کی ترقی کو چین پاکستان اکنامک کوریڈور میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سڑکوں کا جال بچھانے اور ائیرپورٹ کی کشادگی اور جدت اور پورے علاقے کی ترقی کیلئے ایک جامع منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں 2017-18ءمیں 31 منصوبے شامل کئے گئے ہیں۔ ان میں سے نئے ائیرپورٹ کا قیام، 200 بستر کا ہسپتال، 300 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ اور کھارے پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ شامل ہے۔ 2017-18ءمیں سی پیک میں شامل منصوبے اپنے نفاذ کے تیسرے سال میں شامل ہو جائیں گے۔ اگلے مالی سال کے دوران سی پیک اور ان سے جڑے ہوئے منصوبوں کیلئے اس بجٹ سے 180 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
خصوصی علاقہ جات
خصوصی علاقہ جات کی تیز تر ترقی کیلئے 62 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیراعظم کی ہدایت پر آزاد جموں وکشمیر، گلگت بلتستان کے ترقیاتی فنڈز مالی سال 2016-17ءکے 25.75 ارب روپے سے بڑھا کر مالی سال 2017-18ءکیلئے 43 ارب 64 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، جو کہ 69 فیصد تاریخی اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ 26.9 ارب روپے فاٹا کی ترقی کیلئے مختص کئے جا رہے ہیں۔
امن و سلامتی
ستمبر 2013ءمیں وزیراعظم کی ہدات پر حکومت نے کراچی کی رونقیں بحال کرنے کیئے آپریشن کا آغاز کیا جس کے انتہائی مثبت نتائج حاصل ہوئے اور روشنیوں کے شہر کراچی میں دوبار ہ سے ثقافتی اور تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا۔ کراچی پاکستان کا بزنس کیپٹل رہا ہے اور اس میں مزید برکت آ رہی ہے اور ہر شعبے میں نئی سرمایہ کاری نظر آ رہی ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی عالمی جنگ میں صف اول کی ریاست کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جون 2014ءمیں حکومت نے شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف بڑی کارروائی کا فیصلہ کیا اور پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا۔ قوم کو فخر ہے کہ پاکستان کی بہادر افواج نے چھپ کر وار کرنے والے بزدل دشمن کو شکست فاش دی، کوئی مارا گیا، کوئی پکڑا گیا اور کوئی بھاگ گیا، یہ فتح ہمارے بہادر فوجیوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ آج پوری دنیا کو دہشت گردی کا سامنا ہے مگر کسی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف اتنی جامعہ فتح حاصل نہ کی جتنی پاکستان کی افواج کو حاصل ہوئی۔ ہمارے جونوں نے مشکل حالات میں اپنے پیاروں سے دور رہ کر وقت گزارا اور شہادتیں حاصل کیں، معذور ہوئے مگر ہمت نہ ہاری اور بالآخر اللہ کے فضل سے کامیابیاں حاصل کیں۔
وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا ہے اور اب وہ کبھی کبھار سرحد پار سے نمودار ہوتے ہیں اور پھر منہ کی کھاتے ہیں۔ ہمارے بہادر جوانوں اور غیور افسران کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ قوم کے بہادر سپوتوں کی بے پناہ قربانیوں کو سراہنے کیلئے میں وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ افواج پاکستان کے تمام افسران اور جوانوں کو تنخواہ کا دس فیصد سپیشل الاﺅنس دیا جائے گا۔ یہ الاﺅنس تنخواہوں میں اضافے کے علاوہ ہے۔ آپریشن ضرب عضب جیسے بڑے قومی اقدام کیلئے وسیع مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف یہ قومی فرضہ ہے جس کیلئے وسائل فراہم کرنا پوری قوم پر لازم ہے۔ اس ضمن میں حکومت گزشتہ تین سال سے 90 سے 100 ارب روپے سالانہ بلا واسطہ یا بالواسطہ خرچ کر رہی ہے اور بلاواسطہ فوجی کارروائی کے اخراجات کے حوالے سے اور بالواسطہ عارضی طور پر بے گھر افراد کی کفالت، واپسی، آبادکاری اور علاقے کے ترقیاتی اخراجات کی مد میں ہے۔
اس ضمن میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے یہ تجویز دی تھی کہ اس قومی فریضے کیلئے بھی تین فیصد حصہ مختص کیا جائے۔ یہ معاملہ ابھی سی سی آئی، این ایف سی میں زیر بحث ہے۔ اسی طرح کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کیلئے 3 فیصد مختص کئے جانے کیلئے صوبوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ نیشنل اکنامک کونسل کی حالیہ میٹنگ میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم، گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ اور گورنر کے پی کے نے فاٹا کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ مطالبہ دہرایا کہ وہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں اور ان کو بھی ڈویزبل پول میں ویسے ہی حصہ دیا جائے جیسے باقی چار صوبوں کو دیا جاتا ہے۔
میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ گروس ڈویزبل پول میں 6 فیصد مختص کئے جانے کے فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے این ایف سی ایوارڈ کو حتمی شکل دینے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ میں اپنے ہم منصب پارلیمنٹیرینز سے درخواست کروں گا کہ وہ صوبائی حکومتوں سے اس منصفانہ اور مناسب ایلوکیشن کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔