ہم کو فٹ پاتھ بھی دے دو

ہم کو فٹ پاتھ بھی دے دو
ہم کو فٹ پاتھ بھی دے دو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 چاروں طرف ٹریفک کا اژدھام تھا ۔ گرمی کی شدت بے حال کئے جا رہی تھی ۔دل چاہا کہیں سائیڈ پر کھڑا ہوجاو¿ں مگر تا حد نگاہ کھڑے ہونے کے لئے مناسب جگہ نہیں مل رہی تھی ۔گاڑیاں اور لوگ سڑکوں پر ہی رواں دواں تھے۔ سست رفتاری سے ٹریفک آگے بڑھ رہی تھی کیونکہ پیدل چلنے والوں کی مختص کردہ جگہ یعنی شہر کراچی کے فٹ پاتھ تجاوزات کی نذر ہوچکے ہیں۔ گرین بیلٹ یا شجر کاری کا تصوّر ہی ختم ہو کر رہ گیاہے۔ آپ دو کروڑ آبادی والے شہر کے کسی شخص سے پوچھ لیں کہ اس نے آخری درخت کب لگایا تھا۔وہ آپکو نیچے سے اوپر تک دیکھے گا آپکی ذہنی حالت پر شبہ کا اظہار کرے گا اور بڑبڑاتا ہو آگے چل دے گا۔بھلا غم روزگار میں جکڑے شخص کو شجرکاری یا فٹ پاتھ کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا مطلب۔
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یونانیوں کے شہر کورینتھ(Corinth)میں چوتھی صدی عیسوی میں فٹ پاتھ بنائے گئے تھے۔ رومن بھی فٹ پاتھ بڑے اہتمام سے بنایاکرتے تھے۔ 1671ء میں عام شاہراہوں کی صفائی اورفٹ پاتھ کے لیے قوانین بنائے گئے تھے۔ 1766ء میں لندن شہرمیں روشنی، صفائی اور پیدل چلنے والوں کے فٹ پاتھ کے اہتمام کے لیے قانون سازی ہوئی۔ انیسویں صدی کے آغازمیں یورپی ممالک کے تقریباً تمام دارالخلافوں میں کھلے فٹ پاتھوں کا اہتمام تھا۔
حادثات کی روک تھام میں بھی فٹ پاتھ کا واضح کردار ہے۔2005ء میں فلوریڈاٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ ایک مخصوص علاقے اوروقت تک محدودتحقیق پر مبنی اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاطر خواہ فٹ پاتھ کی تعمیرکی بدولت حادثات میں 74فی صد کمی آئی۔اسی طرح امریکی ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے لیے نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق فٹ پاتھ کی تعمیر سے حادثات کا خطرہ88.2فی صدکم ہوجاتاہے۔
ان اعدادوشمارسے اگر کلی طور پر اتفاق نہ بھی کیا جائے تب بھی یہ بات تو واضح ہے کہ فٹ پاتھ کی عدم موجودگی حادثات کے چندبڑے اسباب میں سے ایک ہے۔
فٹ پاتھ جہاں سڑک کے ساتھ پیدل چلنے والوں کی آسانی اور حفاظت کے لیے ضروری ہیں وہاں سڑک پر ٹریفک کو رواں رکھنے اور حادثات سے بچنے کے لیے بھی اہم ہیں۔ دیہاتوں میں کھلی جگہوں، آبادی اورٹریفک کی کمی وجہ سے فٹ پاتھ شاید ضروری نہ ہو لیکن شہروں میں توسڑک کے دونوں طرف ناگزیرہیں۔
ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ بڑے شہروں میں بھی اکثر مقامات پرسڑک کے ساتھ فٹ پاتھ بنانے کاکوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔اس وقت افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہائی سٹریٹ میں بھی فٹ پاتھ نہیں ہوتا۔ ہائی سٹریٹ شہریاقصبے میں ا±س مقام کو کہتے ہیں جہاں تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جن سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ ہیں بھی، وہ باقاعدہ فٹ پاتھ کا درجہ نہیں رکھتے۔ مطلب یہ کہ فٹ پاتھ اور سڑک کے درمیان حدِ فاصل نہیں۔ جس کی وجہ سے موٹرسائیکل حتیٰ کہ چھوٹی گاڑی بھی اس پرآسانی سے چڑھ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ فٹ پاتھ چوڑائی کے لحاظ سے ناکافی، جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوئے اورکھلے مین ہول کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ اکثرمقامات پر دکانداروں نے ف±ٹ پاتھ تک اپنی دکانیں بڑھالی ہیں، یاپھرچھابڑی والوں، ریڑھی والوں ، عطائیوں اور فال بتانے والوں نے اس کو کرایے پرلے لیاہے۔ ہوٹلوں اورگاڑیوں کی ورکشاپوں کا کاروبار توشاید فٹ پاتھ کے بغیر ”ممکن “ہی نہیں ہوتا۔یہ لوگ صرف فٹ پاتھ پر ہی اکتفا کرتے تو بھی خیر تھی لیکن یہ تو سڑک کے عین درمیان تک قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔مانگنے والوں کا حق اس کے علاوہ ہے۔رات کا معاملہ البتہ اورہے جب یہی فٹ پاتھ بے چارے ،بے گھر اور بے در لوگوں کی قیام گاہ کا کام دیتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کو یا تو میسر نہیں ہیں یا اگر ہیں تو وہ اتنے خطرناک ہیں کہ اس سے بہتر سڑک پر چلنا ہوتاہے۔ 
کراچی شہر کو گرین بس کا تحفہ دینے کے نام پر صرف ایک بس چلانے کے لیئے تیس فٹ کی سڑک غائب کر دی گئی اور موجودہ سڑکوں کو توسیع دینے کے لیئے فٹ پاتھ ہی غائب کر دی گئی۔جہاں کہیں خوش قسمتی سے فٹ پاتھ موجود ہے وہ پیدل چلنے والوں کے لیے کم اور موٹر سائیکل سواروں کے لیئے زیادہ استعمال ہوتی ہے ۔جہاں کہیں تھوڑی ٹریفک جام ہوئی موٹر سائیکل سوار نے کمال مہارت سے گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھائی اور یہ جا وہ جا۔ کئی مقامات پر یہ منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ پیدل چلنے والے سڑک پر اور بائک والے حضرات فٹ پاتھ پر چل رہے ھوتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوسکتاہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا عوام سے تعلق ہی کیا ؟ان کی کلاس ہی الگ ہے۔یہ اپنے آپ کو ایلیٹ کلاس کہلواتے ہیں۔ جن کی بستیاں عام لوگوں سے الگ تھلگ ہیں۔ ان کے پاس لگژری گاڑیاں ہیں۔ عام بازاروں اور شاہراہوں پر پیدل چلنا تو درکناران کی گاڑیوں کی گزرگاہیں بھی الگ ہیں۔اگر کبھی عام آبادی کی طرف آنا بھی پڑے تب حفاظت کے نام پر ان کی سہولت کے لیے ٹریفک روک دی جاتی ہے اور پیدل چلنے والوں پر دفعہ ایک سو چوالیس کا نفاذ ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فٹ پاتھ نہ ان کی ضرورت ہے نہ مسئلہ۔لہٰذافٹ پاتھ کی تعمیر کے سلسلے میں خاطر خواہ قوانین موجود نہیں ہیں۔جب قانون ہی موجود نہ ہوتو سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ کامنصوبہ کیوں کربنایا جائے اوربجٹ کیسے رکھا جائے۔
موٹر وے اور سڑکیں بنانے کے ماہر خادم اعلیٰ کے شہر لاہور کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔سڑک اور فٹ پاتھ کے باہمی تعلق سے بھرپور لا علمی یہاں بھی جابجا نظر آتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکز اور چاروں صوبوں کے حکمران اس مسئلے پر توجہ دیں۔ شہروں اورقصبوں میں سڑکوں کی تعمیرکے ساتھ فٹ پاتھ کی تعمیر کولازمی کردیاجائے۔ فٹ پاتھ بھی ایسے جو سڑک سے واضح طور پر الگ ہوں۔ اس کے لیے سڑک اور فٹ پاتھ کے درمیان درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ اس طرح آلودگی میں کمی ہوگی، موسم پر خوش گوار اثرات مرتب ہوں گے اورعلاقے کی خوب صورتی میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ صرف حکومتوں اور اداروں ہی کا نہیں، تمام سیاسی وسماجی راہنماو¿ں اور غیر سرکاری تنظیموں کا بھی فرض ہے کہ اس انتہائی سنگین عوامی مسئلے کی طرف حکومت کی توجہ دلائے بلکہ قانون ساز اداروں سے فٹ پاتھ کی تعمیر، مرمت، صفائی اور عوام کے لیے قابل استعمال بنانے کے لیے قانون سازی کرائی جائے۔۔
عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ 70 سال سے پانی۔ بجلی۔ گیس۔ سڑکیں اور نالیاں پکی کروانے کے نام پر ووٹ دینے والوں کے مطالبات میں ابھی فٹ پاتھ کی تعمیر کا مطالبہ بہت دور ہے۔ ترقی کی فٹ پاتھ پر سفر کرنا ہے تو کرپشن کے ٹریفک سے فاصلہ رکھ کر چلنا ہوگا نہیں تو سڑک اور فٹ پاتھ کب ایک دوسرے میں مدغم ہوجائیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔

۔۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -