امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات میں دہشتگردگروہ رکاوٹ : پینٹاگون

امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات میں دہشتگردگروہ رکاوٹ : پینٹاگون

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

واشنگٹن( آن لائن ) امریکی محکمہ دفاع نے کہا ہے افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی، امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کی قسمت کا تعین کرے گی۔پینٹاگون کے آپریشن فریڈم سینٹینل کے لیڈ انسپکٹر جنرل کی رپورٹ میں مارچ 31کو اختتام پذیر ہو ئے رواں سال کی سہ ماہی کا جائزہ لیا گیا جس میں دونوں ممالک (پاکستان اور افغانستان)میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کی نشا ند ہی کی گئی۔رپورٹ میں خاص طور پر القاعدہ اور داعش خراسان کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا آپریشن فریڈم سینٹینل(او ایف ایس)مشن کی مر کز ی توجہ ان دونوں گروہوں پر تھی جو مفاہمتی عمل کے اہم ترین تحفظات میں سے ایک ہیں۔خیال رہے آپریشن فریڈم سینٹینل(او ایف ایس)امریکی حکومت کی سربراہی میں دہشت گردی کےخلاف عالمی سطح پر لڑی جانےوالی جنگ کا باضابطہ نام ہے۔رپورٹ میں افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے خدشات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا امن کےلئے جاری مذاکرات میں یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا طا لبان ان گروہوں پر اثر انداز ہونے میں مدد اور انہیں پناہ گاہیں فراہم کرنے سے انکار کرسکتے ہیں، جس حد تک امریکہ کی جانب سے اختیار کیے جانےوالے انسدادِ دہشت گردی کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں امریکہ اور افغان حکام کا کہنا تھا افغانستان اور پاکستان میں کم از کم 20د ہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔علاوہ ازیں مذکورہ رپورٹ میں اس بات کا تخمینہ بھی لگایا گیا ہے کہ خطے میں موجود ان دہشت گرد تنظیموں میں کتنے جنگجو ہوسکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ان میں سے زیادہ تر گروہوں کو عالمی سطح تک رسائی یا پنپنے کا موقع حاصل نہیں، مثلا تحریک طا لبا ن پاکستان، جو ایک بڑا دہشت گرد گروہ ہے کی توجہ پاکستانی حکومت کےخلاف جنگ کرنے پر مرکوز ہے۔رپورٹ میں دیے گئے اندازوں کے مطابق داعش خراسان، حقانی نیٹ ورک اور تحریک طالبان پاکستان خطے کے 3سب سے بڑے گروہ ہیں، جن میں 3تا5ہزارجنگجو شا مل ہیں،ان کے بعد اسلامک امارات ہائی کونسل چوتھا بڑا گروہ ہے جس میں ایک ہزار جنگجو شامل ہیں جبکہ القاعدہ جو افغانستان میں امریکہ کے حملے سے قبل سب سے مضبوط گروہ تھا اب محض 300جنگجوﺅں تک محدود رہ گیا ہے۔
پینٹاگون

مزید :

علاقائی -