بچپن لوٹ آیا ہے۔۔۔
دیہات کا پُرفضاماحول چھوڑے سالوں گزرگئے اور یہ خواہش دل ہی دل میں کہیں دم توڑ رہی تھی کہ کاش کچھ ہفتے مسلسل ان درختوں کے نیچے بیٹھ کرگزارے جائیں جہاں بچپن کے دن گزرے تھے۔۔۔اسی دوران کوروناکی وباپھوٹی اورپھر’ورک فرام ہوم‘ کے احکامات نے کورونا کی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والی غمی کو خوشی میں بدل دیا۔۔۔رخت سفرباندھا اور موٹروے پر ایسے گاڑی دوڑائی جیسے کورونا ایک خوفناک جن کی صورت میں ہمارے پیچھے بھاگ رہاہو اور ہم اس سے بچنے کی کوشش میں ہوں۔۔۔ہینڈ سینٹائزرہاتھوں پر بار بار ملتے،منہ پر ماسک چڑھائے اورسماجی فاصلے برقرار رکھتے ہوئے جب گاؤں پہنچے توہمارے ماسک دیکھ کر ڈیرے کے کتے خوب بھونکے۔۔۔ماسک اتارا تو کتوں نے پہچانا کہ بڑے صاحب اور چھوٹے صاحب تشریف لاچکے ہیں لہذا دُم دباتے قدرے شرمسار سے ہوگئے کہ اب ڈانٹ ڈپٹ نہ شروع ہوجائے۔خیروہ انسان تھوڑے ہی تھے کہ جنہیں ڈانٹاضروری تھا۔۔۔وہ اپنی غلطی پر ہی پشیماں تھے تو بات ختم۔۔۔مزید انہیں ڈانٹ کر حالات خراب کرنے کا فائدہ بھی نہیں تھا کہ اب شب و روز انہیں کتوں نے ہماری رکھوالی کرنی ہے لہذا ان کیساتھ بگاڑنے کی بجائے تعلقات ٹھیک رکھے جائیں تو یہی بہتررہے گا۔
سورج ڈھلتے ہی رات کی تاریکی نے پَر کھولے تو آسمان تاروں سے بھر گیا اورچاندکی روشنی نے گاؤں کی چھت سے چناب کے کنارے بھی دکھا دئیے۔۔۔گھاس کے پتوں سے اڑان بھرتے جگنؤؤں نے بچپن کی شامیں یاد کرادیں اور کہیں دور ٹمٹاتی روشنیوں نے مٹی کے تیل پر جلنے والے دئیے کی یاد تازہ کردی ،جب گاؤں میں بجلی نہیں تھی اور ہم سکول کا سبق لالٹین کی روشنی میں یاد کرتے تھے،وہ تو بھلا ہو واپڈا والوں کا جب انہوں نے پورے 14ہزار روپے رشوت لے کر ہمارے گاؤں کو بھی برقی روشنیوں سے منور کردیا۔۔۔یاد ہے وہ دن جب گاؤں میں ہمارے گھر پہلا بلب جلا تو سارا گاؤں ہمارے گھر جمع ہوگیا،پھر اگلے ہی دن سارے گھروں میں وائرنگ ہوگئی اور وہ بلیک اینڈ وائٹ انٹینے والا ٹی وی جو ٹریکٹر کی بیٹری پر چلتا تھا بجلی پر چل پڑا۔۔۔
صاف رزلٹ کیلئے ایک بچے نے چھت پر چڑھ کر انٹینا ہلانا اور اور دوسرے نے ٹی وی پر نظر رکھنی۔۔۔کبھی موسم اچھا ہونا تو پڑوسی ملک کا کوئی چینل نظر آجانااور یہ خاصی حیرت کی بات ہوا کرتی تھی۔۔۔ پختہ مکان کی پکی چھت پر کھڑے ہوکر وہ کچے مکان یاد آگئے جب بارش کے پانی میں کاغذکی کشتی چلاتے تو دوسری طرف کم سن بچیاں اپنی گڑیا کے کپڑے تیار کرتی تھیں۔۔۔۔چوبارے کی چھت سے گھرکے صحت میں دیکھاتو جیسے ماضی کی فلم دماغ کے کمپیوٹرپرچلنا شروع ہوگئی ہو۔۔۔
یہ وہ دور تھا جب اتنی بڑی حویلی میں ایک بیٹھک،دو کمرے،ایک کچن،ذرا ہٹ کر ایک جانوروں کا کمرہ،جس کیساتھ ایک مرغیوں کا ڈرباتھا،سامنے لئی کی چھمکوں (لئی دریائی علاقوں میں قدرتی اگتی ہے جس کی ٹہنیاں آگ جلانے یا ٹوکرے بنانے کے کام آتی ہیں)سے بنے ٹوکرے کے نیچے لال رنگ کا مرغا ہوا کرتاتھا جو مسجد کے میناروں سے اذان کی آواز بلند ہوتے ہی اپنی اذان دے دیتاجس سے پورے گاؤں کو فجر کی خبر ہوجاتی،لوگ سورج کی کرنیں پھوٹنے سے قبل کھیتوں میں کام کاج کو پہنچ جاتے اور گھر کی خواتین نماز،تلاوت قرآن کے بعد ناشتہ بنانے کی تیاری میں مصروف ہوجاتی تھیں، بجلی کا تصورتھا مگر میسر نہ تھی اس لیے دودھ میں مدھانی ہاتھوں سے ہی چلائی جاتی جس سے تازہ مکھن اور لسی ناشتے کامرکزی جزو بنتی،تب ناشتے میں چوپڑی روٹی،اچار،مکھن اور لسی ہوا کرتی تھی اور اگر موسم ہوتا تو پھر پراٹھے پر ساگ رکھ کر اوپرمکھن رکھاجاتااور یوں ایک خالص ناشتہ سارے دن کے لیے جسم کی توانائی کا سبب بن جاتا۔۔۔۔
سورج کی کرنیں نمودار ہوتیں تو گھاس پر پڑے شبنم کے قطرے موتیوں کی طرح چمکنے لگتے اور مرغیاں اپنے ڈربوں سے نکال دی جاتیں جو دانہ دنکا کھانے کے لیے گھر کے سامنے باغ میں پہنچ جاتیں،اس دوران انسانی آوازیں کانوں میں پڑتے ہی بانس اور آم کے درختوں کے پتوں میں چھپی چڑیاں،بلبلیں اور جل ککڑ اڑ کر اپنے اپنے مشن پر نکل جاتے، کوے تب تک کچے مکانوں کے بنیرے پر آکر اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھال لیتے تاکہ کسی بچے کے ہاتھ میں روٹی کا لقمہ ہو تو وہ جھپٹ کر اسے اپنے بچوں کو کھلا سکے،صبح صبح مرغیوں کے ننھے چوزے بھی کوؤں کا خاص ہدف ہوا کرتے تھے،اگر کوئی چوزہ کوا یا چیل اٹھا کر لے جاتی تو پھر بچے اس چوزے کو چھڑانے میں کسی فوجی لشکر کی طرح آخر تک پیچھا کرتے یہاں تک کہ وہ چیل یا کوا چوزے کوبلندی سے ہی پھینک دیتا ،کوے سے چوزہ چھڑانے کی کہانی پھر بچوں کے ذریعے جنگل کی آگ کی طرح مساجد میں سپارہ پڑھنے والے دیگر بچوں اور پرائمری سکول میں کچی اور پکی کے طالب علموں تک بھی کچھ ہی دیر میں پہنچ جاتی۔۔۔تب خالص جذبے،خلوص اور پیارسے بھرپورانسان تھے اورہرطرف چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لبوں پر مسکراہٹوں کے پھول بکھرجاتے تھے۔۔۔
گاؤں کے چپے چپے،درخت،درخت اور کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر جگہ جگہ یادوں کے موتے بکھرے پڑے ہیں،کورونا نے موقع دیا اور ہم نے ان موتیوں میں سے کچھ موتی سمیٹ لیے،کچھ کو سمیٹنے کے لیے وقت کا انتظار ہے مگرمیں یہ دعا نہیں کرتاکہ کرونا کی لہر طویل ہو اور میں یہ موتی سمیٹتا رہوں۔۔۔بے شک اس وبا نے مجھے میرا بچپن یاد کرادیا مگر خدا سے دعا ہے کہ وہ جلدی انسانیت کو اس تکلیف دہ وائرس سے چھٹکارہ عطافرمائے،البتہ آپ میں سے بھی اگرکسی کو شہرکی مصروف زندگی سے کچھ وقت ملے تو اپنے آبائی گاؤں ضرورجائیں، جگنؤؤں سے ملیں،تتلیوں کے پیچھے بھاگیں اور چوزوں کو کو ؤں سے بچانے کی کوشش کریں،بکری کے بچے کے معصوم ہونٹ گھاس پر خوراک تلاش کرتے دیکھیں،طلوع آفتاب کے وقت چمکتے شبنم کے قطرے دیکھ کرمحظوظ ہوں،غروب آفتاب کے وقت گھونسلوں کو لوٹتے پرندے دیکھیں،نیلے آسمان پرتاروں کا جھرمٹ دیکھیں اور چودہویں کے چاندپرغورکریں،،چاند کے داغ کو چرخا کاتتی بڑھیا تصورکریں۔۔یقین جانیے آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ کا بچپن لوٹ آیا ہو۔۔۔
(بلاگرمناظرعلی مختلف اخبارات اورٹی وی چینلز کےنیوزروم سے وابستہ رہ چکےہیں،آج کل لاہور کےایک ٹی وی چینل پرکام کررہے ہیں۔عوامی مسائل اجاگرکرنےکےلیےمختلف ویب سائٹس پربلاگ لکھتے ہیں۔ان سےفیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔