ہوش مندی سے کام لینے کی ضرورت

ہوش مندی سے کام لینے کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تحریک انصاف کی طرف سے لانگ مارچ کے بعد اسلام آباد میں دھرنا دینے اور حکومت کی طرف سے اُسے روکنے کے فیصلے نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی  جس نے ایک جانب  ملک کا نظامِ زندگی  مفلوج کر دیا تو دوسری طرف بے یقینی اور ہر لمحہ کچھ ہو جانے کے ڈر نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ضرورت اس بات کی تھی کہ جب تحریک انصاف نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو حکومت اور تحریک انصاف دونوں باہمی مشاورت سے اس کا روٹ اور دھرنے کے مقام کا تعین کرتے، تمام جزئیات طے کی جاتیں اور اس ضمن میں ایک تحریری معاہدہ بھی عمل میں آتا جیسا کہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن اِس بار دونوں فریقوں کے درمیان رابطے کے فقدان اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد نے ایسی فضا پیدا کر دی جیسے یہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ دو ممالک کے درمیان ”جنگ“ ہے۔ لانگ مارچ پہلے بھی اسلام آباد میں پہنچتے اور وقت گزرنے کے ساتھ قصہئ پارینہ بھی بنتے رہے ہیں مگر اِس بار تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کچھ ایسے بیانات دیے جن کی وجہ سے حکومت کا موقف یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو اسلام آبا میں داخل ہونے اور وہاں دھرنا دینے کی اجازت نہیں دے سکتی۔عمران خان نے ایک  جمہوری عمل کو جہاد کا نام دے کر اپنے کارکنوں اور حامیوں کو ایک خاص ذہن کے ساتھ اسلام آباد کی طرف آنے کی کال دی۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کر رکھا تھا کہ جب تک اسمبلیاں تحلیل اور نئے انتخابات کی تاریخ نہیں دی جائے گی، وہ اسلام آباد سے نہیں جائیں گے۔ سیاست میں کوئی مطالبہ حتمی نہیں ہوتا بلکہ گفت و شنید کی گنجائش رکھی جاتی ہے۔ ویسے بھی اگر عوام کا ایک ہجوم لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کر دی جائے اور اُس کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کا مطالبہ منوا کر واپس جانے کی ضد کو اپنا لیا جائے تو پور ے نظام پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے کیونکہ پھر کوئی بھی جماعت یا گروہ اپنے حامیوں کو اسلام آباد لا کر ایسے مطالبات منوانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت کا موقف یہ ہے کہ تحریک انصاف ”وعدہ خلافی“کے معاملے میں اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اتحادی وزراء کے ہمراہ جو پریس کانفرنس کی اُس میں کھل کر بتایا کہ حکومت تحریک انصاف کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کی اجازت کیوں نہیں دینا چاہتی۔ان کا کہنا تھا 2014ء میں جب تحریک انصاف نے دھرنا دیا تو ایک جگہ بیٹھنے کی بجائے وہ ریڈ زون میں پہنچ گئے، وزیراعظم ہاؤس اور سپریم کورٹ پر بھی یلغار کی،اسلام آباد ہائی کورٹ نے جب اُن کے وکیل سے اِس بار بیان حلفی دینے کو کہا کہ دھرنا پرامن ہو گا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جائے گا تحریک انصاف کے وکیل نے بیان حلفی دینے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کوئی حکم جاری نہیں کیا۔وفاقی اور پنجاب و سندھ کی حکومتوں نے اسلام آباد کی طرف تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے دونوں صوبوں اور اسلام آباد میں دفعہ144لگا دی۔پنجاب سے اسلام آباد کی طرف آنے والے تمام راستے بھی کنٹینرز لگا کر بند کر دیئے۔ پنجاب اور سندھ میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں جبکہ لاہور میں ایک افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب تحریک انصاف کے ایک رہنما کی گرفتاری کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر فائرنگ سے ایک پولیس کانسٹیبل کمال احمد شہید ہو گیا۔ایک طرف انتظامیہ نے پنجاب سے اسلام آباد آنے والے تمام ر استے بند کئے تو دوسری جانب خیبرپختونخوا سے عمران خان نے ایک جلوس کے ساتھ اسلام آباد کی طرف اپنا مارچ شروع کر دیا، چونکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اس لیے عمران خان پچھلے کئی دنوں سے وہاں مقیم تھے۔ یوں صورت حال کشیدہ ہوتی چلی گئی، گزشتہ روز سارا دن مختلف شہروں میں  ایسے مناظر دیکھے گئے جہاں مظاہرین رکاوٹیں ہٹاتے رہے اور پولیس انہیں روکنے کی کوشش کرتی رہی۔لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال بھی ہوتا رہا۔یہ صورت حال کب تک چلتی ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں کیونکہ ایک طرف دھرنے اور انتخابات کے اعلان کی ضد جاری ہے تو دوسری طرف حکومت نے بھی یہ ارادہ باندھ رکھا ہے کہ یہ ضد پوری نہیں ہونے دینی۔ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے جہاں وہ یکطرفہ طور پر یہ ریلیف مانگنے گئی کہ لانگ مارچ  اور دھرنا دینا اُن کا آئینی و جمہوری حق ہے اس لیے حکومت کو رکاوٹیں ڈالنے سے روکا جائے۔ اطلاع  یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر فریقین میں ایک معاہدہ طے پا گیا ہے کہ تحریک انصاف لانگ مارچ کی بجائے باہمی اتفاق سے طے کردہ جگہ پر جلسہ کرے گی اور پھر واپس چلی جائے گی،تادمِ تحریر اس کی مکمل تصدیق نہیں ہو سکی اس کے لیئے فریقین کا باہمی علان لازم ہے دعا ہے کہ ایسا ہو ہر دو فریق ہوش کا دامن تھامیں اور قوم کو اس الجھن سے نجات دلائیں، سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں عدالتوں سے رجوع کرنے کی بجائے سیاسی جماعتیں خود مل بیٹھ کر فیصلہ کیوں نہیں کر سکتیں،آخر کیا وجہ ہے کہ تحریک انصاف اپنا پروگرام انتظامیہ کے ساتھ طے نہیں کر پائی۔انتظامیہ مختلف یقین دہانیاں مانگتی ہے،چند شرائط پر اجازت دیتی ہے کیونکہ مادر پدر آزادی تو دی بھی نہیں جا سکتی۔ حکومت کو بھی چاہیے تھا کہ پابندی کا یکطرفہ اعلان کرنے کی بجائے تحریک انصاف کی قیادت کو اس حوالے سے مذاکرات کی دعوت دیتی، دونوں مل کر کسی متفقہ معاہدے پر پہنچتے اور اُس کے مطابق تحریک انصاف کو اسلام آباد میں آنے کی اجازت دے دی جاتی،پھر  ایسی کشیدہ صورت حال  پیدا نہ ہوتی جس نے پچھلے دو دنوں سے اسلام آباد کو بالخصوص اور پنجاب کو بالعموم اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔فریقین کو یہ نکتہ سمجھنا چاہیے کہ طاقت کے زور پر سیاسی معاملات کے فیصلے نہیں ہوتے اور  مادر پدر آزادی کا نعرہ لگا کر کوئی سیاسی جدوجہد بھی کامیاب نہیں ہوتی۔ پاکستان کا ایک آئین ہے اور سب کچھ اُس کے دائرے میں رہ کر ہی ہو سکتا ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -