امریکہ۔ ایک مختلف دنیا  (1)

  امریکہ۔ ایک مختلف دنیا  (1)
  امریکہ۔ ایک مختلف دنیا  (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پچھلے سال 13 اکتوبر کو ہم میاں بیوی عازمِ امریکہ ہوئے، اڑھائی مہینے کے قیام کے بعد میں واپس آ گیا ہوں۔ بیگم صاحبہ البتہ کچھ دن پہلے آئی ہیں۔ قیام واشنگٹن ڈی سی کے نواحی علاقے فیرفیکس میں رہا۔ میری دونوں بیٹیاں امریکہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں لہٰذا اُن کا آنا کم کم ہوتا ہے اس لئے اس دفعہ ہمیں رخت ِ سفر باندھنا پڑا۔ یہ میرا امریکہ کا تیسرا وزٹ تھا۔ پہلی دفعہ 1987ء میں بیوی اور بیٹی کے ساتھ برطانیہ گیا تو وہاں سے امریکہ چلا گیا۔ اِس وزٹ میں اوریگن، وسکانسن، واشنگٹن ڈی سی اور نیویارک میں گھومنے کا موقع ملا۔ واشنگٹن ڈی سی میں اُس وقت پی ٹی وی میں میرے دو سینئر رضی احمد رضوی اور نقی عباس صاحب میزبان تھے۔ نیویارک میں بھی ایک سابق کولیگ نجم الحسن کے پاس ٹھہرا۔ وہ اُس وقت ایک نجی ٹی وی کے لئے کام کرتے تھے اور اُن کا دفتر  Manhattan میں تھا لہٰذا شہر دیکھنے کا خوب موقع ملا۔ نجم الحسن صاحب آجکل ٹورنٹو میں ہیں، پھر تقریباً پانچ سال پہلے برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں بیٹی کی گریجوایشن کی تقریب میں شرکت کیلئے وینکوور جانا ہوا۔ پھر وہاں سے ہم دونوں بس اور ٹرین کے ذریعے امریکہ میں کارویلس اوریگن گئے وہاں ایک پرانے دوست سعید کے پاس کچھ دن قیام رہا۔ وہاں سے میں کیلیفورنیا گیا جہاں سان ڈیاگو میں یارِ دیرینہ مخدوم صدیق اکبر کے پاس ٹھکانہ رہا۔


اس دفعہ زیادہ قیام فیرفیکس میں رہا۔ کئی شاپنگ مالز اور کچھ عجائب گھر دیکھنے کا موقع ملا اگرچہ ڈی سی میں واقع عجائب گھر میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا کچھ دیرینہ دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ نقی عباس صاحب سے 1987ء کے بعد اُن کے گھر فیملی کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ نقی عباس کوئٹہ ٹیلی ویژن سنٹر پر ہمارے نیوز ایڈیٹر تھے۔ وہ ایک اچھے پروفیشنل اور نفیس آدمی ہیں آجکل وہ کئی کمپنیوں کے مالک ہیں۔ وہیں انہوں نے ڈاکٹر سہیل ملک کو بھی بلا لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اگرچہ اکانومسٹ ہیں اور ورلڈ بینک میں رہے ہیں لیکن زمانہ طالب علمی میں وہ ریڈیو اور پی ٹی وی سے بھی کسی حد تک منسلک رہے ہیں اور اُس دور کی یادیں اُن کے ذہن میں اب بھی تازہ ہیں۔ وہ باغ و بہار شخصیت ہیں عموماً اُن سے اسلام آباد میں ملاقات ہوتی ہے لیکن اب یہاں وہ ہر محفل میں موجود رہے۔ نقی عباس صاحب کی ایک ملاقات سے تسلی نہیں ہوئی چونکہ یادوں کی پوٹلی بہت بھاری تھی لہٰذا اُن سے تین چار دفعہ ملاقات ہوئی۔آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد اور لاہور میں اُن سے تفصیلی ملاقاتیں رہیں۔ رضی احمد رضوی صاحب وائس آف امریکہ کی اُردو سروس کے ایم ڈی رہے ہیں انہوں نے ایک پاکستانی ہوٹل میں بوفے لنچ پر ملاقات کا اہتمام کیا تو وہاں بھی نقی عباس صاحب اور ڈاکٹر سہیل ملک صاحب تو موجود ہی تھے خالد حمید صاحب اور وائس آف امریکہ سے کوکب فرشوری بھی شامل ہوئے۔

اِس سے پہلے وائس آ ف امریکہ کے ہی ایک صاحب اسد حسن نے ایک پاکستانی نمک منڈی ریسٹورنٹ میں محفل سجائی، وہاں پر ایک سینئر صحافی مرحوم انوار فیروز کی بیٹی نورین طلعت عروبہ بھی موجود تھیں۔ 1976ء میں وہ پی ٹی وی میں موسم پڑھتی تھیں اور اتفاق سے میں ہی انہیں ڈیل کرتا تھا بعد میں وہ خبریں بھی پڑھتی رہیں اب یہاں قیام پذیر ہیں اُن کی بیٹی بھی ساتھ تھیں جو وائس آف امریکہ میں کام کر رہی ہیں۔ یہ محترمہ بڑی اچھی شاعرہ ہیں اُن کے علاوہ دو اورمرد شاعراور ایک خاتون شاعرہ بھی محفل میں شامل تھے حتیٰ کہ ہوٹل کے مالک بھی جن کا تعلق خیبرپختونخوا سے تھا اُردو کے شاعر تھے لہٰذا یہ ملاقات محفل مشاعرہ میں تبدیل ہو گئی پھر نقی عباس صاحب نے ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کا بندوبست کیا اس دفعہ ممتاز صحافی انور اقبال شامل گفتگو تھے انور اقبال سے اُس وقت سے شناسائی تھی جب وہ مسلم اخبار سے وابستہ تھے اس کے بعد اب ملاقات ہوئی وہ ڈان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان سے پاکستان سے لیکر امریکہ تک بہت سے موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔ پی ٹی وی کے ممتاز نیوز کاسٹر خالد حمید صاحب نے بھی ایک ہوٹل میں لنچ کا اہتمام کیا۔ اس دفعہ بھی ڈاکٹر سہیل ملک صاحب محفل میں شامل تھے۔ رضوی صاحب نے ایک شادی میں شرکت کیلئے ٹیکساس جانا تھا۔ انہوں نے مجھے بڑی تاکید کی کہ میری واپسی تک آپ نے جانا نہیں کیونکہ ایک ملاقات سے تسلی نہیں ہوئی لیکن افسوس کہ میں واپسی کا پروگرام فائنل کر چکا تھا لہٰذا میں واپس آ گیا۔فیرفیکس ہی میں ایک اور صاحب ضیاء الحسن سے دوستانہ تعلق بن گیا وہ بنیادی طور پر انجینئر ہیں اور اُن کا تعلق لاہور کے ایک معزز خاندان سے ہے۔دراصل ہماری بیگمات کے درمیان دوستی ہو گئی تھی۔


اس دوران میں 10 دن کیلئے ٹیکساس گیا۔ وہاں سان انٹونیو میں ڈاکٹر مقصود چوہدری کے پاس قیام رہا۔مقصود چوہدری پنجاب یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں ہمارے کلاس فیلو تھے۔ عملی زندگی میں وہ کچھ عرصہ گارڈن کالج میں پڑھاتے رہے پھر عازم امریکہ ہوئے وہاں انہوں نے پی ایچ ڈی کر لی اور کئی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے آجکل ریٹائرڈ لائف بسر کر رہے ہیں انہیں Lums میں پڑھانے کی آفر تھی لیکن وہ تیار نہیں ہوئے۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے پنجاب کے کیئرٹیکر وزیراعلیٰ جناب حسن عسکری رضوی صاحب نے جو پنجاب یونیورسٹی میں ہمارے ٹیچر تھے مقصود چوہدری کو وزارت کی پیشکش بھی کی لیکن چوہدری صاحب امریکہ چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے۔ سان انٹونیو کی خاص بات ریور واک ہے۔یہ واک آپ نے کر لی تو گویا شہر دیکھ لیا۔ دریا شہر کے اندر سے گزرتا ہے دریا کے دونوں طرف واک کیلئے فٹ پاتھ بنا ہوا ہے دریا میں سیر کیلئے کشتیاں چلتی ہیں اور دونوں کناروں پر کیفے اور ریسٹورنٹ ہیں جہاں ہر وقت سیاحوں کا جمگٹھا لگا رہتا ہے۔ ہم ایک دن کیلئے ایک اور شہر Carpus Christie گئے وہاں ہمارے ایک پرانے کولیگ عزیزناریجو صاحب سے ملاقات ہوئی۔ عزیز ناریجو صاحب اور میں نے پی ٹی وی کراچی سنٹر میں اکٹھے کام کیا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں وہ پی ٹی وی چھوڑ کر امریکہ چلے گئے بعد میں وہ ایک دفعہ پاکستان آئے اور اسلام آباد سے شام کا انگریزی اخبار ” دی کرانیکل“نکالا۔ سُپر مارکیٹ میں بڑا اچھا دفتر بنایا لیکن اخبار کامیاب نہیں ہوا تو پھر امریکہ چلے گئے۔ ناریجو صاحب نے ہماری رہائش کا انتظام ایک ہوٹل میں کیا، رات کو خوب گپ شپ ہوئی۔ پرانی یادیں تازہ کیں۔ شہر کی سیر کی دوسرے دن ہم واپس آ گئے اگرچہ تشنگی رہ گئی کیونکہ یہ ملاقاتیں عشروں کے بعد ہو رہی تھیں۔ 


میری بڑی بیٹی جارج میسن یونیورسٹی میں سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ اِس سے پہلے انہوں نے LUMS سے گریجوایشن کے بعد برطانیہ کی لیسٹر یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ماسٹر کیا تھا۔ان کی یونیورسٹی دیکھنے کا موقع ملا۔ جارج میسن یونیورسٹی 1949ء میں یونیورسٹی آف ورجینیا کی برانچ کے طور پر وجود میں آئی۔ 1972ء میں ایک الگ یونیورسٹی بن گئی اب ورجنیامیں اس کے چار کیمپس ہیں۔ یونیورسٹی کا اکیڈمک سٹاف 2600 لوگوں پر مشتمل ہے اور طلباء کی تعداد تقریباً انتالیس ہزار ہے۔ اب تک یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کو نوبل انعام مل چکا ہے۔ میرے داماد احسن انصاری صاحب ایک مشہور کمپنیAT&T میں منیجر ہیں۔فیرفیکس میں قیام کے دوران شاپنگ مالز کے چکر لگتے رہتے تھے خاص طور پر فیراوکس مال اور موزیک ڈسٹرکٹ مال قابل ذکر ہیں۔ موزیک مال میں بہت رش ہوتا ہے اور فرسٹ فلور پر انہوں نے اوپن جگہ بھی رکھی ہوئی ہے جہاں لوگ آگ جلاکر چائے کافی پی رہے ہوتے ہیں۔   (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -