ماضی کے آئینے میں حال اور مستقبل؟

شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے تو 9 مئی کے دکھ آمیز واقعات کی مذمت بھی ہو رہی ہے جو بھی ہوا وہ الیکٹرونک میڈیا کے توسط سے عوام تک پہنچ ہی رہا ہے میں بھی آپ سب کی طرح دیکھ، سن اور پھر غور کر رہا ہوں اور حیرت میں ہوں، گو میرے اپنے خیالات اور احساسات ہیں لیکن ایک چپ سو سکھ پر عمل کی کوشش کرتا ہوں اس کے باوجود سیر صبح کی محفل میں ایک آدھ بار جذبات حاوی ہو گئے تھے کہ قومی امور سے الگ بھی تو نہیں ہو سکتے۔ نو مئی کے حوالے سے بڑے بڑے اہم راہنماؤں کے بیانات نظر سے گزرے لیکن جو لطف فرزند راولپنڈی لال حویلی (جو اب وہاں نہیں ہیں) والے شیخ رشید کے بیان کا آیا وہ کسی اور کا نہیں تھا۔ اپنے شیخ صاحب بہت جہاں دیدہ اور تجربہ کار ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ اس وقت سب سے سینئر سیاستدان ہیں یہ مان بھی لینا چاہئے کہ وہ جیل یاترا کرتے رہے ہیں لیکن اس سے بچنے کا ہنر بھی جانتے ہیں اور اب بھی پولیس ان کو حراست میں لینے میں کامیاب نہیں ہو سکی انہوں نے اسی دوران اپنے بیان میں نو مئی کے ناخوشگوار واقعات کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ملزموں کو قرار واقعی سزا دینے کے ساتھ ہی بے گناہوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ محترم فرزند راولپنڈی نے تحریکی راہنماؤں کی طرح ان سے واضح لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا۔ یوں تاش کا کوئی پتہ اپنے پاس بھی رکھ لیا ہے۔ ہم تو ان کے فین اور دعا گو ہیں یہ تو نصرت جاوید جانتے ہوں گے کہ وہ کس حد تک ”بقراط عصر“ ہیں۔
یہ گزارش اس لئے کی کہ ان دنوں دھڑا دھڑ استعفے آنا شروع ہو گئے ہیں اور خیال کیا جا رہا،بلکہ اطلاع دی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے گی اس کے لئے جو خبریں ہیں وہ مختلف انداز سے تجزیاتی طور پر پیش کی جا رہی ہیں تازہ ترین اطلاع جہانگیر ترین کے حوالے سے ہے کہ وہ تحریکی حضرات سے رابطے کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایوان سے باہر والی جماعت میں فارورڈ بلاک بھی بن رہا ہے میں اس سب کو کسی حیرت کے بغیر دیکھ رہا ہوں کہ ماضی کا بھی شاہد ہوں حتیٰ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے دور میں راؤ سکندر اقبال کی قیادت میں پیٹریاٹ بنتے بھی دیکھ چکا ہوں اور مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ابتدا میں جب پیٹریاٹ والے محترمہ سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کر رہے تھے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ گروپ محترمہ کو واپس اقتدار میں لائے گا خود راؤ سکندر اقبال (مرحوم) نے بھی لا تعلقی کا اعلان نہیں کیا تھا میں نے یہ خبر بریک کی تھی کہ یہ مستقل علیحدگی ہے اس کا محترمہ کی واپسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ خبر اس روز بریک کی جب میاں مصباح الرحمن (لاہور کے صدر تھے) کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ میں نہ صرف راؤ سکندر اقبال آئے تھے بلکہ ان کے ساتھ نوریز شکور اور مخدوم فیصل صالح حیات بھی تھے اور دعوت میں شریک جیالے اور مہمان ان حضرات سے مل مل کر خوش ہو رہے بلکہ مبارک باد بھی دے رہے تھے۔ اسی دعوت میں مجھے ایک محترم نے واضح طور پر بتا دیا کہ یہ مستقل ہے اب واپسی کا کوئی چانس نہیں اور یہی میری خبر بھی تھی لہٰذا کسی فارورڈ بلاک کی اطلاع سے مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا حالانکہ میری اطلاعات اور ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ جو شلوار سلاتے ہیں وہ رفع حاجت کے لئے راستہ بھی رکھ لیتے ہیں یہ ضرب المثل سی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو طاقت آپ کو مضبوط اور طاقتور بنانے کی اہلیت رکھتی ہے وہ اتنی کمزور نہیں ہوتی کہ آپ کے نعروں یا ”مقبولیت“ سے خائف ہو جائے کہ اس مقتدرہ کے پاس صرف پلان اے نہیں ہوتا بی سی اور ای ڈی بھی ہوتا ہے یہ تو آپ کی بالغ نظری کا سوال ہے کہ آپ اسے کس طرح جانتے ہیں اور پھر ہمارے معاشرتی کلچر میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے مقام کے لئے جو لڑائی ہوتی ہے اس میں کامیابی مقتدرہ ہی کے حصے میں آتی ہے اور ایسا ہی ہوا ہے البتہ جو بہت بڑا فرق موجودہ حالات کے پس منظر میں ہے اور میں نے اس پر ہمیشہ اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ قوم کو اس بری طرح تقسیم کیا گیا کہ اس کے اثرات دور دور اور ہر شعبہ ہائے زندگی تک پہنچے اور 9 مئی کے ناخوشگوار واقعات اسی کا مظہر ہیں شاید یہ نو مئی کا اعزاز ہے کہ ہیئت حاکمہ نے اپنے آپ پر مکمل قابو پا لیا اور اب جو ذمہ دار ہیں ان کو قانون کے دائرہ میں لا کر سزا دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن اب ایک نئی بحث شروع ہو گئی اور جمہوریت کے ساتھ آئین کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس طرح جماعتیں ختم نہیں ہوتیں۔یہ درست اعتراض ہے لیکن یہاں ایسا بھی تو ہوا کہ جماعتوں کی طاقت نہ رہی اور کمزور ہو کر موجود ہیں ویسے ہمارا کلچر بھی عجیب ہے اس دور میں جب دولت کی ہوس نہ تھی ایک ہی رات میں ری پبلیکن پارٹی بن بھی گئی اور ڈاکٹر خان صاحب برسر اقتدار بھی آ گئے یہ تو میری پروفیشنل زندگی میں ہی ہوا کہ ایک سے دو اور دو سے تین جماعتیں بھی بن گئیں۔ مسلم لیگ ایک ایسی جماعت ہے کہ آج بھی اس نام سے متعدد دھڑے موجود ہیں حتی کہ فرزند راولپنڈی نے اپنی مسلم لیگ بنا رکھی ہے جسے عوامی مسلم لیگ کہا جاتا ہے اب یہ کہاں ہے اور اس کے اراکین و کارکن کدھر ہیں تو اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ قومی اسمبلی میں شیخ رشید خود ہی تھے۔ بہر حال میں ان حضرات سے متفق ہوں کہ گملے میں اُگنے والی جماعتوں کا حال ایسا ہی ہوتا ہے، تاہم یہ ضرور عرض کروں گا کہ سیاستدان حضرات کو غور کرنا چاہئے کہ بالآخر گلیشیر ان پر ہی گرتا ہے اور نیک نامی یا بدنامی انہی کے حصے میں آتی ہے۔ اس لئے حالات حاضرہ یا معروضی حالات میں ان سب کو سبق سیکھنا ہوگا کہ ہم اور ہمارا ملک معاشی طور پر بہت بری حالت میں ہیں اور معاشی اور اقتصادی امور نے یو ایس ایس آر کو توڑ دیا اور آج حالت یہ ہے کہ روس، یوکرائن سے نبرد آزما ہے اور ایک سال سے زیادہ ہونے کے باوجود قابو نہیں پا سکا بلکہ جنگ کا دائرہ کچھ اور وسیع ہوتا نظر آ رہا ہے۔
ہمارے ملک میں یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ شاید اب کسی نئی جماعت کا تجربہ کیا جائے اس کے لئے اشارے خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نواز کی طرف کئے گئے ہیں کہ ان کا امیج نیٹ اینڈ کلین بن رہا ہے۔ یہ کام مشکل نظر آ رہا ہے اگر کوئی ایسی جماعت بن بھی گئی تو وہ کامیاب ہونے میں جتنا وقت لے گی اتنے وقت کی استطاعت نہیں۔اس لئے بہتر ہے کہ آزمودہ لوگوں پر ہی انحصار کر لیا جائے، اس تمام سنیریو کے باوجود میں عرض کروں گا کہ ضرورت قومی اتفاق رائے کی ہے اب بھی بہتر عمل یہ ہو گا کہ مذاکرات ہی کا راستہ نکالا جائے بلا شبہ نو مئی کے ذمہ داروں کا پورا احتساب ہو لیکن سیاست میں مصالحت کے ذریعے امن کا ماحول بنایا جائے اس وقت بیروز گاری اور مہنگائی نے عوام کا برا حال کر رکھا ہے اور اسی سے بہت مسائل جنم لیتے ہیں،یہ احساس ہر سیاسی راہنما جماعت اور کارکن کو ہونا چاہئے اس لئے میں تو پھر مذاکرات اور مثبت نتائج کی درخواست کروں گا۔
کسی فارورڈ بلاک یا نئی جماعت سے پہلے ہی تحریک انصاف(حقیقی) برآمد ہو گئی ہے۔