فصلی بٹیرے

 فصلی بٹیرے
 فصلی بٹیرے

  

 انگریزی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ کسی دریا کے کنارے ایک مینڈک بیٹھا سوچ رہا تھا کہ  دریا کو کس طرح پار کرئے پانی بھی سخت یخ بستہ ہے اور انتہائی تیز بھی ایسے میں دریا کی روانی یقینااسے بہا لے جائے گی اس کے ذہن میں کئی تدبیریں آئیں مگر جب بھی وہ دریا عبور کرنے کا سوچتا موت کا  خوف ہمیشہ ہی اس کے آڑے آ جاتا سوچتے سوچتے شام ہو گئی کہ اچانک  ایک مکڑے نے اس کی پریشانی دیکھ کر اسے بڑی عاجزی سے کہا کہ تم اس قدر اْداس کیوں  بیٹھے ہو؟کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں اگر تم چاہو تو میں تمہیں  اپنی کمر پر سوار کر کے دریا کے دوسری طرف چھوڑ دیتا ہوں  مینڈک نے مایوسی سے کہا مکڑے میاں آپ تو مجھے ڈس کر مار ہی دیں گے مکڑے نے بڑے احترام سے اسے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ بھائی مینڈک بھلا میں تمہیں کیوں ڈسوں گا مجھے اس سے کیا فائدہ ہو گا؟اس طرح تو میں خود بھی تمہارے وزن سے مر جاؤں گا اور پھر  میں تو آپ کو کھا بھی نہیں سکتا تو پھر بھلا کیوں ایسا سمجھتے ہو میرا یقین کرو میں ایسا نہیں کروں گا یہ تو بس ہمدردی کے لئے کہہ رہا ہوں اگر جانا ہے تو بتاؤ میں تمہیں تمہارے قبیلے کے پاس  چھوڑ دیتا ہوں  اس قدر احترام محبت اور ہمدردی کو دیکھ کر مینڈک نے حامی بھر لی اور وہ مکڑے پر اعتماد کر کے اس کے ساتھ جانے کے لئے راضی ہو گیا اب جیسے ہی مینڈک مکڑے کی کمر پر سوار ہوا اس نے اس کو ڈس لیا اور زہر اس کی رگوں میں اْترنے لگا مینڈک نے مرتے مرتے مکڑے سے پوچھا مکڑے میاں آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ مجھے نہیں ڈسیں گے کیونکہ اس کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا اس پر مکڑے نے مرتے ہوئے مینڈک کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا مینڈک میاں میں نے ٹھیک کہا تھا معاف کرنا میرا ارادہ تو نیک تھا، مگر  ڈسنا  میرے سر شت میں ہے میں اپنی عادت سے مجبور ہوں۔

تحریک انصاف کو اس امتحان کی گھڑی میں اکیلا  چھوڑکر جانے والے لیڈروں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے فصلی بٹیروں کی طرح دانہ دنکا کھایا اور ڈکار کر اْڑ گئے بہرکیف کھرے کھوٹے کی پہچان بھی مشکل میں ہی ہوتی ہے مفاد پرست ہمیشہ کڑے وقت میں چھلنی میں چھن جاتے ہیں یا پھرمکار مکڑے کی طرح عادت سے مجبور ہو کر ڈس کر رفو چکر ہو جاتے ہیں شیریں مزاری نے تو باوقار انداز میں پارٹی کو چھوڑا جو سمجھ میں آتا ہے مگر فیاض الحسن چوہان کی پریس کانفرنس کے بعد سرل المیڈا کا ٹویٹ بھلا لگا کہ جس میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کو موجودہ حکومت کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ سارے کھوٹے سکے کھل کر سامنے آ گئے سارے کہ سارے جیل سے نکلتے ہی پریس کانفرنس میں پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیتے ہیں۔

سیاست چھوڑنے نہ چھوڑنے کا حق تو سب کو ہے مگر سوچنے کی بات ہے کہ یہ سیاسی دباؤ پر اس قدر تبدیل ہو گئے ہیں کہ خدا کی پناہ اگر خدا نہ خواستہ  پاکستان پر کوئی مشکل وقت آ جاتا  اور یہ سب حکومت میں ہوتے تو ذرا سوچئے یہ کیا کرتے دوسروں  پر باتیں کرنے والے خود دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے ہیں ویسے بھی اونٹوں والوں سے دوستی رکھو تو دروازے بھی اونچے رکھنے چاہئیں۔

اس وقت حکومتی حلقوں میں جس بات پر سب سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے وہ ہے نو مئی کو پاکستان کے مختلف شہروں میں  ہونے والا جلاؤ گھیراؤ اور اس سے منسلک واقعات،جبکہ تحریک انصاف،حکومت اور ادارے سب کا موقف ایک  ہی ہے کہ جس نے بھی ان واقعات میں سرکردہ رول ادا کیا ان کو قرار واقعی سزا ہونی چاہئے، کیونکہ اس جلاؤ گھراو کے نتیجے میں وطن عزیز کو بھاری نقصان ہوا خاص طور پر بیرون ملک پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی  جو کہ شدید  قابل مذمت ہے  اس کے علاوہ اداروں  پر ہزا سرائی اور قابل نفرت الفاظ استعمال کر نا بھی بے حد افسوسناک ہے ان واقعات کی تحقیق کے بعد کھلی عدالت میں اس کی سماعت ہو نی چاہئے مگر دوسری طرف مبینہ طور پر تحریک انصاف کے بھی25 کے قریب کارکنان جاں بحق ہو ئے ہیں جو پولیس انتظامیہ کے لئے ناصرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ  شرمناک اقدام ہے، کیونکہ دنیا بھر میں پاکستان کو پولیس اسٹیٹ سے تشبیہ دی جا رہی ہے  اس کے نتیجے میں جو  ناقابل ِ تلافی نقصان ہوا ہے میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ان معاملات کو بہتر انداز سے بھی ڈیل کیا جا سکتا تھا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔

اِس وقت پاکستان پہلے کی بات کرنے والوں کو آئین پاکستان کو پہلے تحفظ دینا چائیے کیونکہ آئین ہے تو پاکستان بھی ہے اور اگر عوام اور اداروں کا وقار برقرار ہے تو وطن عزیز کا وقار بھی قائم ہے۔ 

ان واقعات کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے دشمنوں کو ہوتاہے پڑوسی ملک بھارت میں پاکستان کے ان حالات پر منفی پروپیگنڈا اور اداروں کو نشانہ بنانا انتہائی قابل تشویش ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ایک چپ سو سْکھ،میرے خیال سے عمران خان کو پہلے دن سے ہی خاموشی اختیار کرنی چاہئے تھی، کیونکہ بہت سی باتیں جو وہ کرتے رہے ہیں ان کا نہ تو کوئی جواز تھا نہ ثمر اور نہ ہی کوئی فائدہ ابھی تک سامنے آیا سوائے اس کے کہ ملک میں افراتفری پھیلائی گئی جس کا نقصان بالآخر تحریک انصاف کو سب سے زیادہ ہوا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ملکی سلامتی سب سے زیادہ مقدم ہے اور ہونی بھی چاہئے حکومت، اپوزیشن اور اداروں کو مل کر افہام و تفہیم سے کام کرنا چاہئے ورنہ پاکستان کی خوشحالی و ترقی کی راہ میں بد اعتمادی کی فضا اسی طرح قائم رہے گی یہ بات جان لیجئے کہ نہ ہم سیاسی جماعتوں کے بغیر چل سکتے ہیں اور نہ ہی اداروں کی مدد کے بغیر ایسا ممکن ہے تو پھر مائنس ون فارمولے کو کیوں نہ ہمیشہ کے لئے دفن کر کے آگے بڑھا جائے کچھ لچک حکومت دیکھائے تو کچھ اپوزیشن اور کچھ ادارے اپنا کرادار ادا کریں، کیونکہ اللہ کی زمین پر فساد اللہ کو ہر گز پسند نہیں اللہ وطن عزیز پر رحم فرمائے آمین 

مزید :

رائے -کالم -