یوم تکریم شہدا و یوم تکبیر

  یوم تکریم شہدا و یوم تکبیر
  یوم تکریم شہدا و یوم تکبیر

  

25 مئی کو یوم تکریم شہدا منایا گیا۔28 مئی کو یوم تکبیر منایا جاتا ہے۔ 9مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا، جس طرح املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ جی ایچ کیو اور لاہور و پشاور کے کور کمانڈر ہاؤسز پر دھاوا بولا گیا۔ وہ ہماری تاریخ کا ایک اور سیاہ باب ہے۔ لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس کو ایسے جلا کر راکھ کر دیا گیا جیسے دشمن کا مفتوحہ قلعہ ہو۔ جلے ہوئے کور کمانڈر ہاؤس جانا ہوا جو عوام کے لئے اوپن کیا گیا ہے۔ مسجد کے لئے استعمال ہونے والے کمرے کو بھی نقصان پہنچایا گیا جبکہ نئی مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، جس کمرے کے شیشے توڑے گئے اس پر اولڈ ماسک (پرانی مسجد)لکھا ہوا ہے۔ اس میں محراب ہے نہ اوپر گنبد بنا ہوا جو مسجد کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے جبکہ نئی عمارت مسجد کی تمام علامات سے مزین  ہے۔

عمران خان کی جس انداز سے گرفتاری ہوئی وہ ان کے حامیوں کو مشتعل کرنے کیلئے کافی تھا۔ اس کے اظہار کا طریقہ آگ بگولا ہو کر جو سامنے آئے جلا دیا جائے، اڑا دیا جائے،ایسا کیا گیاہے تو کرنے والے بھگتیں۔ شہدا کی یادگاروں کو بھی توڑا گیا۔ اس سے بڑی شہدا کی توہین کیا ہوگی۔ جنرل عاصم منیر کی طرف سے یوم تکریم شہداء منائے جانے کا فیصلہ ہر محب وطن کے دل کی آواز ہے۔ ہر پاکستانی نے اس میں حصہ لے کر اپنا فرض ادا کیا۔ عمران خان کی گرفتاری جس طرح ہوئی اس طرح نہ ہوتی تو شاید اتنا شدید رد عمل نہ آتا دوسرے حکومت کی طرف سے مظاہرین جو کہیں  بلوائی بن چکے تھے ان کو روکا نہیں گیا۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات کی طرف سے پریس کانفرنس کے دوران کہا گیا کہ ”یہ حملہ بڑی  آسانی سے روکا جا سکتا تھا۔ایک توچیف منسٹر پنجاب کی جانب سے پولیس کو اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لاشیں گریں۔“اسی پریس کانفرنس میں وزیر اطلاعات کی طرف سے ایک سوال کے جواب میں کہا۔ ”پولیس فائرنگ لاشیں گرانے کے لئے نہیں لوگوں کو ڈسپرس کرنے کے لئے کرتی ہے“۔9مئی کو فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ اور راجہ ریاض کے گھروں کامظاہرین نے رُخ کیا تو ان کو پولیس نے روک دیا۔

عمران خان کی طرف سے 9مئی کے واقعات کی مذمت کی گئی ہے۔ وہ اس الزام کا بھی اعادہ کر رہے ہیں کہ یہ سب ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ وہ اسے اپنی گرفتاری کے طریقہ کار کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں۔”پی ٹی آئی کے کارکنوں کو جلاؤ گھیراؤ پر اُکسایا گیا۔ مظاہرین میں  اشتعال دلانے والے لوگ ایجنسیوں نے شامل کرائے“۔ اُکسانے والے اور اکسا وے میں آنے والے یکساں مرتکبِ جرم اور مستوجب سزا ہیں۔کچھ وزراکی جانب سے عمران خان پر بھی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔ وزیراعظم پھر وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے کہا گیا کہ جرم کے کسی بھی مرتکب کو چھوڑا نہ جائے اور بے قصور کسی شخص کو چھیڑا نہ جائے۔ اس پر کتنا عمل ہو رہا ہے اس کا اندازہ میڈیا کی نشریات سے ہو رہا ہے۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ عمران خان کی اس سانحہ سے مقبولیت زمین بوس ہو گئی ہے۔ کیا اس کا حکومت کو یقین ہے؟۔ اگرہے تو الیکشن جلد ہو سکتے ہیں۔بات شروع ہوئی تھی یوم تکریم سے،لاہور کا کور کمانڈر ہاؤس اس جلی ہوئی صورت میں کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اسی طرح ہر سال  یوم تکریم شہدا منانا بھی مناسب رہے گا۔ اس سانحہ کے  پس ِ پردہ کرداراگر ابھی نہیں تو کبھی نہ کبھی تو سامنے آنے ہیں۔

یوم تکبیر ڈاکٹر اے کیو خان کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ آج پاکستان ناقابل تسخیر ہے تو ڈاکٹر اے کیو خان اور ان کی ٹیم کے مرہون منت ہے۔ ڈاکٹر اے کیو خان کو فروری 2004ء کو باقائدہ حراست میں لیا گیاوہ کئی ماہ سے پوچھ گُچھ کے عمل سے گزررہے تھے۔  چند ماہ قبل ستائیس نومبر کوڈاکٹر محمد فاروق کو اٹھالیا گیا تھا۔ وہ ڈاکٹر خان کے دست راست تھے۔ اس گرفتاری پر ڈاکٹر اے کیو خان بڑے متفکرومتوحش تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سانس کی ڈوری زیر حراست ٹوٹی۔گووہ کہیں بھی اجازت لے کر جاسکتے تھے، مگر وہ مکمل آزاد شہری نہیں تھے۔ڈاکٹر محمد فاروق کو آج بھی ڈاکٹر اے کیو خان جیسی پابندیوں کا سامنا ہے۔ 

میں نے محسن ملت کے نام سے کتاب مرتب کی اس میں ڈاکٹر محمد فاروق کا تفصیلی انٹرویو شامل ہے۔ اس کتاب میں ایس ایم ظفر صاحب سے کی گئی گفتگو بھی موجود ہے۔ وہ ڈاکٹر خان کی ڈی بریفنگ میں آئی ایس آئی اور عبدالقدیر خان کے نمائندے تھے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔اس فیصلے کے خلاف وزیراعظم ظفر اللہ جمالی سد ِ راہ بن گئے۔ ایس ایم ظفر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اس حوالے سے ذکر چھڑا تو انہوں نے اس ”تصور“ کی سختی سے تردید کی۔ ایس ایم ظفر کی ڈاکٹر خان کے ساتھ بڑی قربت اور دوستی رہی۔ہالینڈ میں ڈاکٹر خان کو  چار سال سزا ہوئی تو ڈاکٹر خان نے ایس ایم ظفرصاحب کو اپنا وکیل کیا تھا اور ڈی بریفنگ کے دوران ڈاکٹر خان نے کہا تھا کہ اس دوران انہیں ایس ایم ظفر کی ضرورت ہے اور وہ ڈی بریفنگ کے دوران ان کے ساتھ رہے۔ آئی ایس آئی نے بھی ایس ایم ظفر پر اعتماد کیا تھا۔ڈاکٹر صاحب کو اعتماد تھا کہ میں ان کی بات سنبھالوں گا اور آئی ایس آئی کو اعتماد تھا کہ اندر کی بات باہر نہیں کروں گا۔  ملاقات کے دوران انہوں نے کافی کچھ بتایا اور کہا کہ وہ اس کے سوا بھی بہت کچھ جانتے ہیں،مگربتائیں گے نہیں۔ ڈی بریفنگ کے دوران جو نتیجہ نکلا وہ میں نہیں بتاؤں گا اور اب تو ڈاکٹر صاحب دنیا میں نہیں ہیں اس لئے بتا ہی نہیں سکتا۔میں نے بھی اصرار نہیں کیا۔

 صدر بش کے ساتھ ملاقات کے بعدمشرف صاحب کو سی آئی اے کے سربراہ نے ثبوت پیش کئے۔ مشرف واپس آئے تو ان کے لئے بہت بڑی مصیبت بن گئی۔ ڈاکٹر صاحب کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد آئی اے ای اے نے بھی ڈاکٹر صاحب کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔ دباؤ یہ نہیں تھا کہ ان کو حوالے کیا جائے، بلکہ اس کے پیچھے ایک اور پس منظر تھا۔ بیک گراؤنڈ یہ تھا کہ اگر ثابت ہو کہ جو الزامات ڈاکٹر صاحب پر لگے، اس میں ریاست بھی شامل تھی تو ہماری نیو کلیئر ٹیکنالوجی بند کر دی جائے گی۔ اصل پریشانی یہ تھی،اس پریشانی کو ذہن میں لائیے۔ کوئی بھی صدر کے طور پر بیٹھ جائے کیا وہ ڈاکٹر صاحب کو حوالے کر دیتا؟ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے غلطی سے کوئی الفاظ نکل جاتے ہیں، صحیح یا درست، اس پر میں بات نہیں کروں گا۔اس کے نتیجے میں وہ فیصلہ کرتے کہ ریاست اس حوالے سے تجارت کر رہی ہے تو ہماری نیو کلیئر ٹیکنالوجی بند ہو جاتی۔

مزید :

رائے -کالم -