پاک فوج زندہ باد

 پاک فوج زندہ باد
 پاک فوج زندہ باد

  

 جو کچھ 9مئی کو وطن عزیز میں ہوا خدا رہتی دنیا تک وہ مناظر دوبارہ نہ دکھائے، خدا معلوم پی ٹی آئی کی قیادت اور منصوبہ سازوں نے نوجوانوں اور خواتین کے ذہنوں میں کس قدر زہر بھردیا تھا کہ انہوں نے اپنے شہداء کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اپنے ہی دفاع کو اپنے ہاتھوں سے آگ لگادی اور ریڈ لائن ریڈ لائن کی گردان کرتے ہوئے ہر فوجی تنصیب پر چڑھ دوڑے اور شہداء کی ہر نشانی کو مٹانے پر تل گئے۔ 

یقینی طور پر اس غارت گری کے منصوبہ سازوں کے ارادے تھے کہ پاکستان میں مصر، سوڈان اور ترکی کی طرح خانہ جنگی کروا دی جائے، مگر آفرین ہے پاک فوج کی قیادت پر کہ جس نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنوں کو وہ کچھ کرنے دیا جو کچھ وہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ سچ پوچھئے تو لبرٹی چوک میں بھی وہ لوگ اس لئے جمع ہوتے تھے کہ وہ اسے مصر  کے آزادی چوک کی علامت جانتے تھے۔ 

یہ درست ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت سیاست میں پاک فوج کی مداخلت کے خلاف ہے اور چاہتی ہے کہ نظام مملکت کو ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے چلنے دیا جائے، لیکن اگر منتخب نمائندے اور قیادتیں خانہ جنگی کا بازار گرم کریں گی تو لوگ تو خود ہی پاک فوج کے سیاسی کردار کو سراہتے پائے جائیں گے۔ آج اگر پی ٹی آئی کے کارکنوں اور لیڈروں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں، ان کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات ہو رہے ہیں، پی ٹی آئی سے راہ فرار میں ہی عافت جانی جا رہی ہے، عمران خان سے عدم اتفاق کی سیاست سمجھی جا رہی ہے تو اس پر عوام کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا رہا ہے، کیونکہ عوام سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ہر حد پار کر لی ہے اور اب انہیں کیفر کردار تک پہنچنا چاہئے۔ حیرت ہے کہ یہ وہی عوام ہیں جو سیاست میں پاک فوج کی مداخلت کو ہدف تنقید بنارہے تھے، مگر 9مئی کے بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب پاک فوج کی مداخلت کے بغیر کوئی اور حل نظر نہیں آرہا ہے، فوجی عدالتوں کے قیام پر اعتراض تو کیا جا رہا ہے، مگر انہیں مسترد کرنے کا حوصلہ کسی میں نہیں ہے۔ 

ملکی سیاست کو ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے، ایک ناقابل یقینی اور ناقابل اعتبار صورتحال کا، بلکہ یوں کہئے کہ ایک ناقابل بیان اور ناقابل تسلیم صورت حال کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی نے جو کچھ کیا اور اب جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے، عام حالات میں عقل سلیم اسے تسلیم کرنے کے لئے کبھی تیار نہ ہو۔ 9مئی سے قبل پی ٹی آئی کا رنگ ڈھنگ ہی الگ تھا، اعلیٰ عدلیہ اس کی پشت پر موجود تھی، پاک فوج کے ریٹائرڈ فوجیوں اور ان کی فیملیوں کی اکثریت اس کے ساتھ تھی، آئی ایم ایف کی جانب سے مالیاتی پروگرام کی منظوری میں تاخیر بھی پی ٹی آئی کو زیبا تھی، پاکستان سمیت دنیا بھر کا سوشل میڈیا اس کا ہمنوا بنا ہوا تھا، امریکہ سے عمران خان کے حق میں آوازیں آرہی تھیں، فوج بحیثیت ادارہ پسپائی پر تھی، پی ڈی ایم دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ پنجاب میں انتخابات کی آڑ میں عمران خان ملک بھر میں عام انتخابات لینے میں اب کامیاب ہوئے کہ تب کہ 9مئی وقوع پذیر ہوگیا اور اس سے پی ٹی آئی کی ساری دھاک، جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 9مئی کو پی ٹی آئی ٹریپ ہو گئی، جھانسے میں آگئی، اسے عمران خان کی بے احتیاطی اور لاابالی پن مار گیا، ان کی سیاسی ناسمجھی ان کی سیاست کو گھن کی طرح کھاگئی لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی کی خودسری کو نکیل ڈالنے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیااور نہ صرف پی ٹی آئی، بلکہ اس کی حامی عدلیہ بھی قابو میں آئی نظر آتی ہے، گویا کہ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی ٹوٹنے سے بچ گئی۔ 

اس پورے ایک سال کے دوران مولانا فضل الرحمٰن تن تنہا گرجتے برستے رہے اور پی ڈی ایم کی ناتواں حکومت کو سہار ا دیئے رہے،نہ صرف حکومت کو بلکہ سچ پوچھئے تو عدلیہ کی من مانیوں کے سامنے پاک فوج کی پتلی حالت کا دفاع بھی مولانا فضل الرحمٰن نے کیا۔ وہ شروع دن سے عمران خان کو پاکستانی سیاست کا غیر ضروری عنصر قرار دیتے رہے اور بالآخر ان کا کہا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہورہا ہے۔ آج جبکہ انہوں نے پی ٹی آئی کو پلٹا دے کر گرادیا ہے، مولانا نے خاموشی اختیار کرلی ہے، پیش منظر سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور جناب شہباز شریف کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے رہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ بھی دھیمے سروں میں سر دھنتے نظر آرہے ہیں اور پوری قوم کی نگاہیں فوجی عدالتوں کی کاروائیوں پر لگ گئی ہیں۔ 

اس پورے ایک سال کے دوران جو بات ثابت ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا پیمانہ بدلا ہو تو ہو لیکن طاقت کا مرکز ابھی بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے کہ پہلے وہ عدلیہ کے ساتھ مل کر اپنے حریف کو نکیل ڈالتی تھی، اس بار پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر نکیل ڈال دی ہے اور ملکی سیاست کا منظر نامہ تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ آج کوئی معاشی بدحالی کا تذکرہ نہیں کررہا ہے اور نہ ہی سیاسی استحکام کو معاشی استحکام سے جوڑتے ہوئے عام انتخابات کو ناگزیر قرار دے رہا ہے۔ آج ہر کوئی فوجی عدالتوں کی بات کر رہا ہے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بات کر رہا ہے، پاک فوج زندہ باد!

مزید :

رائے -کالم -