جھوٹا بادشاہ

ایک ملک کے بادشاہ نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی رعایا بگڑ گئی ہے،طرح طرح کی برائیوں کا شکار ہو چکی ہے،اُسے خوفِ قانون ہے اور نہ خوفِ خدا تو اُسے ایک ترکیب سوجھی کہ کیوں نہ یہ اعلان کیا جائے کہ کل یہ دنیا ختم ہونے والی ہے، سب بادشاہ کے محل پہنچیں اور مرکزی دروازے پر کھڑے ہو کر گناہوں کا اعتراف کریں اور اللہ سے معافی مانگیں تاکہ مرنے سے پہلے اُن کی بخشش کا سامان ہو جائے۔اگلے دن یہ اعلان ہوا اور لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر محل کے سامنے جمع ہو گیا،سب کے چہرے اُترے ہوئے، آنکھیں خوف میں ڈوبی ہوئیں اور ہونٹ کپکپاہٹ میں جکڑے ہوئے تھے۔ پہلے جن چیزوں کی خواہش میں وہ مرے جا رہے تھے اب وہی چیزیں انہیں زہر لگ رہی تھیں،لوگوں کے اژدہام کی وجہ سے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ہر شعبے کے افراد کو ایک گروپ کی صورت میں بادشاہ کے سامنے پیش کیا جائے اور اُن میں سے ایک شخص اُس کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی برائیوں اور کوتاہیوں کی تفصیل پیش کرے۔سب سے پہلے کاروباری افراد کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔اس طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک بڑے کاروباری آدمی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔”ہم اعتراف کرتے ہیں کہ زائد منافع کے لالچ نے ہمیں اندھا کر دیا تھا، ہم نے ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے اپنی ہوس کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ہم پر اخلاقی، مذہبی یا ملکی قوانین کی طرف سے جو پابندیاں تھیں انہیں پس ِ پشت ڈال دیا۔ ہمارا دین ایمان پیسہ بن گیا،لیکن آج جب آپ نے مرنے کی خوفناک خبر بنائی ہے،اُس وقت سے یہ دھن دولت جلتی ہوئی آگ کی طرح محسوس ہو رہے ہیں۔ہم سر تا پا ندامت میں ڈوبے ہوئے ہیں“۔اُس آدمی نے اپنی بات ختم کی تو بادشاہ نے اُسے باہر جانے کا اشارہ کیا۔
اس کے بعد انتظامی افسروں کی جماعت کو اندر بھیجا گیا،اُن کے چہروں پر ہمیشہ جاہ و جلال کی حکمرانی رہتی تھی،لیکن آج اُن کے چہرے بھی اُترے ہوئے تھے۔اُن کے نمائندے کو بھی بادشاہ کے سامنے مدعا بیان کرنے کی اجازت دی گئی،جس نے کہنا شروع کیا”اے عظیم بادشاہ ہمیں حکومت کی طرف سے عوام کی خدمت کے لئے مقرر کیا گیا،ہم اقرار کرتے ہیں کہ اپنے فرائض سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے، ہم نے خود کو عوام کا خادم سمجھنے کی بجائے حاکم سمجھا،اُن کے مسائل حل کرنے کی بجائے ہمیشہ اُن کے لئے مسائل پیدا کئے،قومی مفادات سے زیادہ اپنے مفادات کو عزیز رکھا اگر ہمیں دوبارہ مہلت ملے تو ہم اپنی کوتاہیوں کی تلافی کرنے کے لئے تیار ہیں“۔بادشاہ نے انہیں بھی باہر جا کر کھڑے ہونے کا حکم دیا۔اس کے بعد شہر بھر کے سیاست دانوں کو بلایا گیا۔وہ پہلے ایک جگہ کبھی اکٹھے نہیں ہوئے تھے اور آج تک کسی مسئلے پر اُن میں اتفاق بھی پیدا نہیں ہوا تھا، مگر آج اُن میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ سب ندامت سے سر جھکائے کھڑے تھے،آج اُن میں سے کوئی بھی نہیں بول رہا تھا،حالانکہ اس سے پہلے انہیں چپ کرانا مشکل ہو جاتا تھا حتیٰ کہ جب بادشاہ نے انہیں نمائندے کے ذریعے اعتراف کرنے کو کہا تو وہ کافی دیر تک ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ بالآخر اُن میں سے ایک عمر رسیدہ سیاستدان آگے بڑھا اور اُس نے کہنا شروع کیا ”بادشاہ سلامت آپ نے اعلان فرمایا ہے کہ دنیا آپ کے دیکھے ہوئے خواب کے مطابق کل ختم ہو رہی ہے ہمیں اگرچہ یقین نہیں آ رہا،مگر آپ کے کہے ہوئے کو نظر انداز کرنا بھی مشکل ہے اگر واقعی کل ایسا ہو رہا ہے تو ہم بہت خسارے میں ہیں،ہم وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے بہت بصیرت دی تھی اگر ہم اپنی بصیرت کو اپنے ہم وطنوں کی فلاح کے لئے کام میں لاتے تو آج یہ ملک خوشحال اور شاداب ہوتا۔افسوس کہ ہم نے اپنی تمام تر توانائیاں قوم کو لڑانے اور اپنے مفادات کے لئے وقف کئے رکھیں۔ہم نے ہمیشہ اقتدار کی خواہش کی اور اس کے لئے جائز اور ناجائز ہتھکنڈے استعمال کئے“۔ یہ کہتے ہوئے سیاست دان کی آواز بھرا گئی، بادشاہ کے کہنے پر سیاست دان کو بھی باہر لے جایا گیا۔ غرض اس طرح طالب علموں، وکلاء، اساتذہ، صحافیوں، فنکاروں، جاگیرداروں، مزدوروں کو باری باری بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔
جب سب لوگوں کی طرف اعتراف ہو چکا تو بادشاہ سلامت دربار سے اُٹھ کر محل کی بالکونی میں آئے،جہاں سے اُن تمام لوگوں کو دیکھا جا سکتا تھا جو اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنے آئے تھے۔ بادشاہ کے بالکونی میں آتے ہی ایک سکوت طاری ہو گیا،بادشاہ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا شروع کیا ”عزیز ہم وطنو! ہمارا ملک ایک طرح سے مختلف قسم کی برائیوں اور خود غرضانہ سوچ کا شکار ہے۔ ہم سب یہی سوچتے رہے ہیں کہ ملک کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ قدرت کی طرف سے ہے،مگر آج آپ کے اعترافات سن کر اندازہ ہوا کہ یہ قدرت کی طرف سے نہیں، بلکہ ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم مرنے پر یقین رکھتے ہیں مگر اسے اپنے اعمال کی بنیاد نہیں بناتے۔یاد رکھیے اُس شخص کی زندگی کامیاب ہے جو دین و دنیا میں توازن ر کھتا ہے۔یاد رکھیے اس ملک کی فلاح آپ کی فلاح ہے، ہم میں سے ہر شخص اگر خوفِ خدا اور وطن کی محبت کے ساتھ اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے لگے تو یہ ملک ایک فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔بادشاہ بول رہا تھا اور سب چُپ سادھے سن رہے تھے۔
بادشاہ نے قدرے خاموشی کے بعد پھر کہنا شروع کیا ”یہاں میں بھی ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ کل زندگی کے خاتمے کی جو پیش گوئی کی گئی تھی، وہ ایک جھوٹ تھا۔ بھلا ایک انسان ایسی پیش گوئی کیسے کر سکتا ہے آپ چونکہ دنیا دار ہو چکے ہیں اور ایمان کی کمزوری کا شکار ہیں اس لئے اس پر یقین کر کے یہاں چلے آئے۔بہرحال خدا نے مجھے اور آپ سب کو اعترافِ گناہ اور اعترافِ غفلت کی مہلت دی یہ بہت بڑی بات ہے، یقینا آج کے بعد اپ اپنی زندگیاں بدل ڈالیں گے“۔
بادشاہ کا یہ اعلان سن کر ہجوم پر ایک لمحے کے لئے سکتہ طاری ہو گیا۔پھر اُن کے چہرے نئی زندگی ملنے پر خوشی سے طمتنانے لگے،چند ہی لمحوں کے بعد ہجوم منتشر ہو رہا تھا، کاروباری لوگوں کو اپنی دکانیں کھولنے کی جلدی تھی،افسر اپنے دفتری کروفر کے بغیر اُداس ہو گئے تھے، سیاست دانوں نے تو وہیں تقریریں شروع کر دی تھیں، جبکہ طالب علم نعروں کے ساتھ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کا فریضہ بھی سرانجام دے رہے تھے،سب نے اپنی زندگی کا آغاز وہیں سے کیا تھا جہاں بادشاہ کے سامنے اعتراف کرنے سے پہلے تھی۔ بادشاہ بہت خوش تھا کہ اُس کی ترکیب کام آ گئی اور ملک میں اب تبدیلی آ جائے گی۔عوام وہ کچھ نہیں کریں گے جو پہلے کرتے آئے ہیں لیکن دوسرے دن بادشاہ کو اطلاع ملی کہ سارے شہر میں پوسٹر لگے ہوئے ہیں جن پر ایک ہی بات لکھی ہے ”ہمارا بادشاہ جھوٹا ہے“۔